کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 462
ضرورت محسوس ہوئی، تاکہ صحیح اور ضعیف میں امتیاز کیا جائے اور زبان کی حفاظت کے لیے نحو کی باقاعدہ تدوین بھی عمل میں آئی۔ ایسے علوم کی ضرورت بھی محسوس کی گئی جن سے استخراجِ مسائل کی صحت میں مدد لی جا سکے، اس لیے یہ علوم صنعت و حرفت کی صورت اختیار کر گئے۔ عرب چونکہ حکومت کی زمام ہاتھ میں لے چکے تھے، اس لیے وہ صنعت و حرفت کو اپنے لیے عار سمجھتے تھے اور یوں بھی صناعت شہریت اور حضریت کے لوازم سے ہے۔ بدوی زندگی میں نہ اس کا احساس ہوتا ہے نہ اس کی ضرورت، اس لیے عجمی اور موالی جو عموماً حضریت اور شہریت سے آشنا اور صنعت و حرفت کی قدر و قیمت کو سمجھتے تھے، وہی لوگ ان علوم کی خدمت کے لیے آمادہ ہوئے۔ البتہ عرب بادشاہ ان لوگوں کی عزت کرتے تھے اور یقین کرتے تھے کہ یہ لوگ دین کے خادم ہیں۔ غرض تمام علوم کی تدوین کا سہرا عجم اور موالیین کے سر پر رہا۔ سیبویہ، ابو علی فارسی، زجاج نحو کے امام عجمی تھے۔ اسی طرح حفاظ حدیث بھی اکثر عجمی ہی تھے۔ فقہ، علم کلام، تفسیر، اصولِ فقہ، تمام علوم عجم ہی کے رہین احسان ہوئے۔‘‘ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’ودفعوا (أي العرب) ذلك إلي من قام به من العجم والمولدين، وما زالوا يرون لهم حق القيام به، فإنه دينهم و علومهم‘‘ ’’عربوں نے تمام علوم عجم اور موالیین کے سپرد کر دیے اور عرب ان لوگوں کے حق کا پورا خیال رکھتے تھے، کیونکہ وہ ان کے علوم اور دین کے ساتھ وابستہ تھے۔‘‘ اگر عجم پر اس طرح بدگمانی کی جائے، تو عرب بھی اس سے محفوظ نہیں۔ وہ بھی ان لوگوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے رہے اور ان پر اعتماد کرتے رہے۔ اور اگر معاف فرمایا جائے، تو ادباً گزارش کروں کہ آپ اور مولانا پرویز اور مولانا جیراجپوری اور آپ کی پوری جماعت سب حضرات خالص عجمی ہیں۔ اگر تخریب دین کی بدگمانی عجمیت ہی پر موقوف ہے، تو آپ حضرات حدیث اور سنت کے خلاف جو کچھ فرما رہے ہیں، ان منافقین کے مشن کی تکمیل ہی تو نہیں؟ سنت کی ممانعت کے بعد قرآن پر جن دست درازیوں کے لیے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے، وہ