کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 43
تصدیر و اہتمام کے ساتھ مکتبہ سلفیہ لاہور سے طبع ہوا۔ یہ رسالہ جہاں اپنوں کی نگاہ میں بنظر استحسان دیکھا گیا، وہاں جماعت اسلامی کے رسائل و جرائد میں اس پر نقد و تبصرہ بھی کیا گیا، چنانچہ جنوری 1957ء کے ’’فاران‘‘ کراچی میں مولانا ماہر القادری نے بھی اپنا حق وفاداری نبھاتے ہوئے مذکورہ بالا رسالے کا تنقیدی جائزہ لیا۔ جس کے جواب میں حضرت سلفی رحمہ اللہ نے ماہنامہ ’’رحیق‘‘ (فروری 1957ء) میں مذکورہ بالا مضمون رقم فرمایا، جس میں انہوں نے ماہر صاحب کے اشکالات و اعتراضات کا جائزہ لیا اور زیر بحث موضوع کے کئی پہلوؤں کو قرآن و حدیث کے دلائل اور ائمہ لغت و اصول کے اقوال و آراء سے مبرہن کیا۔ (5) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ: مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں صحیح بخاری کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کذبات ثلاثہ والی حدیث کا اپنی دانست میں مخالف قرآن ہونے کی بناء پر انکار کیا، تو ایک سائل نے حضرت سلفی رحمہ اللہ سے اس حدیث کے متعلق استفسار کیا، جس کے جواب میں حضرت سلفی رحمہ اللہ نے قرآنی دلائل اور عقلی و لغوی شواہد کے ذریعے سے اس حدیث کا مبنی برحق ہونا ثابت فرمایا اور اس کا انکار قلتِ نظر اور استدلال کی سطحیت کا نتیجہ قرار دیا۔ اس مضمون کے آخر میں حضرت سلفی رحمہ اللہ نے مولانا مودودی کو ’’مشورہ‘‘ دیا کہ تفسیر قرآن اور فقہ الحدیث ان کا میدان نہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ان راہوں سے کترا کر گزر جایا کریں، کیونکہ جب بھی وہ علم کی ان متعارف راہوں سے گزرتے ہیں، تو ٹھوکریں کھانا شروع کر دیتے ہیں، جیسے متعہ کا مسئلہ، مسلک اعتدال، حیات مسیح و دجال وغیرہ مسائل کے متعلق ان کی جدت نوازیاں کامیاب نہیں ہوئیں، کیونکہ ان کے رہوار قلم کی جولانیوں کا میدان بالکل دوسرا ہے۔ جب حضرت سلفی رحمہ اللہ کا یہ مضمون ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (20 اکتوبر 1976ء) میں شائع ہوا، تو جماعت اسلامی کے تنظیمی جرائد میں ایک ہنگامہ بپا ہو گیا، جس میں زیر بحث حدیث، مسلک اہلحدیث اور حضرت سلفی رحمہ اللہ کے علم و فضل کو رد و قدح کا نشانہ بنایا گیا، چنانچہ ان احوال میں زیر بحث حدیث کے دفاع، مسلک اہلحدیث کے محامد و محاسن کو اجاگر کرنے اور حضرت سلفی رحمہ اللہ کی حمایت میں جماعت اسلامی ہی کے ایک سابق رکن اور نامور محقق عالم دین قاضی مقبول احمد صاحب ایم-اے