کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 389
[1]
[1] عقل ہی نے لگوائے۔ آخر دین میں وہ کون سا فتنہ ہے، جو ’’عقل سلیم‘‘ سے پیدا نہیں ہوا؟ بدعت کا سرچشمہ اور الحاد کا منبع بھی تو یہ عقل سلیم ہی ہے۔ آخر عقل سلیم سے کیا مراد ہے: مولانا مودودی کی عقل؟ رازی کی عقل؟ نامعلوم خوش نویس صاحب نے یہ نام کہاں سے سن رکھا ہے کہ بلا سوچے سمجھے استعمال فرماتے رہتے ہیں۔ اگر دوسروں کو تلقین کرنے کی بجائے خوش نویس صاحب ذرا اپنی عقل سلیم استعمال فرماتے، تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ عقل سلیم کتاب و سنت کی خادم ہے، نہ کہ ان کی حاکم۔ عقل سلیم دلیل میں دوسرا درجہ رکھتی ہے اور یہ خوش نویس صاحب ہی کی جہالت ہے کہ آپ اسے پہلا اور حدیث کو دوسرا درجہ دے رہے ہیں۔ خوش نویس صاحب کی یہ بات بذات خود عقل سلیم کے خلاف ہے، انہیں غور فرمانا چاہیے!
ثانیاً: جس زمانہ میں بخاری لکھی گئی تھی، اس وقت سے لے کر آج تک اسے سینکڑوں فقہاء محدثین نے پڑھا۔ ہزاروں اساتذہ نے پڑھائی، لاکھوں تلامذہ نے پڑھی، بیسیوں افراد نے روایت کی۔ امام بخاری رحمہ اللہ، مسلم رحمہ اللہ، نسائی رحمہ اللہ، ترمذی رحمہ اللہ، ابن ماجہ رحمہ اللہ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ، ابن قیم رحمہ اللہ، ابن حجر رحمہ اللہ، شوکانی رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بخاری میں یہ حدیث پڑھی، اسے صحیح سمجھا۔ یہ بزرگ عقل سلیم سے محروم تھے؟
اب دو ہی صورتیں ہیں، یا تو یہ خلقِ خدا عقل سلیم سے محروم تھی یا آپ ہی اس نعمت سے ہاتھ دھو چکے ہیں، اور دوسری بات کا امکان زیادہ ہے، کیونکہ یہ بات بھی تو عقل سلیم کے خلاف ہے کہ پوری خلقِ خدا کے مقابلے پر دو تین افراد کو اس کا اجارہ دار سمجھا جائے۔
ثالثاً: امام بخاری رحمہ اللہ کے زمانہ تک اکثر فرقے جنم لے چکے تھے۔ بخاری رحمہ اللہ نے ان کے خلاف قلمی جہاد کیا، لیکن کسی کو یہ کیڑا نظر نہ آیا، جو آپ ہمیں دکھا رہے ہیں!
رابعاً: مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی تبلیغ میں کوتاہی ہوئی تھی۔ آپ کی اس تحریر پر ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اس سے ایک نبی کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ مولانا مودودی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انبیاء کی عزت کا خیال آپ کو ان کے بھیجنے والے خدا سے بھی بڑھ کر ہے؟ اگر یہ بات نہیں، تو جو مضمون اللہ نے خود اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے، اس کو موجب ہتک یا موہم ہتک قرار دینے کی اور کیا توجیہ آپ کر سکتے ہیں؟‘‘ (رسائل و مسائل: 3/74)
اگر زیر بحث حدیث کے سلسلہ میں مولانا مودودی سے یہ سوال کر دیا جائے کہ:
کیا آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت و عظمت کا خیال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے؟ اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اقوال کو کذب قرار دیا ہے، تو آپ کی جبین پر شکنیں کیوں پڑ گئی ہیں؟
اسی طرح خوش نویس صاحب سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر یونس علیہ السلام کا فریضہ رسالت کی تبلیغ میں کوتاہی کرنا عقل سلیم کے منافی نہیں، تو آخر وہی عقل سلیم زیر بحث حدیث میں عقل سقیم کیوں بن جاتی ہے؟! ---