کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 388
[1]
[1] ’’آپ (حضرت یوسف علیہ السلام) نے پیالہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ خود حضرت یوسف علیہ السلام نے یا آپ کے حکم سے پیالہ بنیامین کے سامان میں رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے:
﴿أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ﴾ (یوسف: 70)
’’پکارنے والے نے پکارا: اے قافلے والو! تم چور ہو۔‘‘
کیا خود پیالہ رکھ کر دوسرے کو چور کہنا کذب نہیں؟ ایسا کرنا یقیناً ’’کذب‘‘ کی تعریف میں آتا ہے، مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اجازت دی تھی کہ ایسی حالت میں کذب کہنا جائز ہے، لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام نے ایسا کیا اور اب اس بنا پر آپ کو کاذب نہیں کہا جا سکتا۔ اس طرح کذبات ثلاثہ والی حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہر سہ مقامات پر اللہ کی اجازت سے ایسا کیا، لہٰذا آپ کا یہ فعل ﴿إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا﴾ کے مخالف نہیں ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہوا کہ بخاری کی کذبات ثلاثہ والی حدیث کسی طور بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت پر ’’داغ‘‘ نہیں اور نہ قرآن کے مخالف ہے، لہٰذا حدیث جس طرح سند کے اعتبار سے صحیح ہے، اسی طرح متن کے اعتبار سے بھی معقول اور صحیح ہے اور روایت اور درایت کسی اعتبار سے بھی اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔
خوش نویس صاحب اور آپ کے معاونین کو چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کو مولانا مودودی کے وقار کا سوال نہ بنائیں، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کا وقار بہرحال ان سے مقدم ہے۔
آخر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ زیر بحث حدیث کے سلسلہ میں خوش نویس صاحب نے جن شبہات کا اظہار کیا تھا، ان کے متعلق بھی کچھ عرض کر دیا جائے۔
آپ لکھتے ہیں کہ ’’اس حدیث میں لفظ کذب کو تعریض پر محمول کرنا عقل سلیم کے خلاف ہے، لہٰذا یہ یقیناً قرآن کے خلاف ہے۔‘‘
خوش نویس صاحب کا یہ ارشاد کئی وجوہ سے محل نظر ہے:
اولاً: بلاشبہ اسلام نے عقل سلیم کو بہت اہمیت دی ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی شخص کو اس کا اجارہ دار سمجھا جائے؟ کیونکہ ہر شخص کے متعلق اس کے معتقدمین کا خیال ہے کہ وہ عقل سلیم کا مالک ہے۔ ہر زمانہ میں اس عقل سلیم ہی کی آڑ میں کتاب و سنت کا شکار کھیلا گیا ہے اور حدیث ہمیشہ سے اس کا تختہ مشق رہی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی، آپ کی بغیر باپ پیدائش، معراج جسمانی، عذاب قبر، پل صراط، حوض کوثر، جنت، دوزخ، ان سب عقائد کا انکار بھی تو عقل سلیم ہی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جنات کو انسانوں سے علیحدہ مخلوق قرار دینا حماقت ہے۔ اس نظریہ کی بنیاد بھی تو عقل سلیم ہے۔ سرسید وغیرہ نے بھی تو عقل سلیم کے قلم سے معجزات پر خط تنسیخ کھینچا۔ پرویز صاحب بھی تو عقل سلیم کی لٹھ سے حدیث کا سر کچل دینا چاہتے ہیں۔ قدریہ، جہمیہ، مرجیہ اور معتزلہ کی ماں بھی تو عقل سلیم ہی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بیڑیاں اور درے بھی تو اس ---