کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 387
[1]
[1] دوسرا قول: بعض علماء کا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ارشاد فی الحقیقت ’’کذب‘‘ ہے، چنانچہ امام بغوی نے تعریض کی توجیہ کرنے کی بجائے حدیث زیر بحث کی بنیاد پر کہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ارشاد تھا ہی کذب اور اس سے قرآن کی آیت کی مخالفت نہیں ہوتی، کیونکہ کسی شریعت میں بھی ’’کذب‘‘ ہر حال اور ہر مقام پر مذموم نہیں ہوتا، چنانچہ شریعت محمدی، جو اخلاق جمیلہ کی سب سے بڑی داعی اور کذب کی سب سے بڑی مخالف ہے، اس نے بھی بعض حالات کو مستثنیٰ رکھ کر وہاں ’’کذب‘‘ کی اجازت مرحمت فرمائی ہے، چنانچہ ایسے مقامات پر کذب درحقیقت صدق ہی کا درجہ رکھتا ہے۔ اسے کذب محض سابقہ نام کی بدولت کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے، خنزیر کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، لیکن بعض حالات میں اسے کھانے کی اجازت دی ہے۔ اب کیا جو شخص اس اجازت کے وقت خنزیر کھاتا ہے، اسے حرام خور کہا جا سکتا ہے؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اکڑ کر چلنے کی مذمت کی ہے، لیکن ساتھ ہی دوران جنگ میں ایسا کرنے کی اجازت دی ہے۔ اب جو شخص دشمن کے مقابلہ میں اکڑ کر چلے گا، کیا اسے اللہ کا حکم کا نافرمان کہا جائے گا؟ بالکل اسی طرح اگرچہ کذب حرام ہے، لیکن جن مقامات پر اللہ نے اس کی اجازت دی ہے، وہاں وہ در حقیقت صدق ہی ہے اور ایسے شخص کو کسی صورت کاذب نہیں کہا جا سکتا۔ اب ملاحظہ کیجیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کن مقامات پر کذب کی اجازت دی ہے؟ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ’’ وَلَمْ أَسْمَعْ يُرَخَّصُ فِي شَىْءٍ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ كَذِبٌ إِلاَّ فِي ثَلاَثٍ الْحَرْبُ وَالإِصْلاَحُ بَيْنَ النَّاسِ وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا ‘‘ (مسلم) ’’میں نے حضور کو جھوٹ بولنے کی رخصت دیتے ہوئے ماسوائے تین مقامات کے کبھی نہیں سنا: لڑائی میں، اصلاح بین الناس اور خاوند بیوی کا باہم جھوٹ بولنا۔‘‘ اس حدیث سے تین مقامات پر کذب کی اجازت معلوم ہوتی ہے، جنگ، اصلاح بین الناس، میاں بیوی کا باہم ایسا کرنا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ حالت جنگ میں تھے یا حالت صلح میں؟ یہ بات سمجھنے کے لیے عقل کی کوئی بڑی مقدار درکار نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ یقیناً حالت جنگ میں تھے اور ایسی حالت میں آپ کا یہ جھوٹ بولنا بالکل جائز تھا اور اللہ کی اجازت سے ایسا ہوا تھا اور اس کا ثواب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اتنا ہی ہوا جتنا عام زندگی میں سچ بولنے کا، کیونکہ وہاں بھی اطاعت تھی اور یہاں بھی اطاعت۔ ﴿فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾ اس کی تائید حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے ہوتی ہے، آپ اپنے بھائیوں سے ’’حالت جنگ‘‘ میں تھے۔ وہاں بھی حضرت یوسف علیہ السلام کو کذب استعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ﴾ ---