کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 386
[1]
[1] بال ہی نہیں، جو اسے صابن سے دھونے کی نوبت آئے، لہٰذا یہ محض دھمکی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’لا أغسل رأسي‘‘ جھوٹ ہے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جو معنی مراد لیا، وہ اور تھا اور جو دوسروں کو تاثر دیا، وہ کچھ اور تھا؟ لہٰذا یہ بھی تعریض ہی ہے۔ یہ سب مثالیں تعریضِ قول کی ہیں۔ تعریضِ فعل کی مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ جو شخص نماز باجماعت میں ’’حدث‘‘ کا مرتکب ہو، اسے چاہیے کہ ناک پکڑ کر دوبارہ وضو کرنے چلا جائے۔ بعض حدث انتہائی معمولی قسم کے ہوتے ہیں اور اگر پیشاب کے قطرہ سے ہو، تو ایسی صورت میں ناک پکڑنا کیا خلاف واقع نہیں؟ کیونکہ معمولی حدث کی بو نہیں ہوتی، اسی طرح پیشاب کے قطرہ سے بھی بو نہیں آتی۔ کیا اس حدیث کی روشنی میں نمازی کا ناک پکڑنا غلط نہیں؟ نفس الامر میں اگرچہ اس فعل کی ضرورت نہیں، لیکن دوسروں کو بتانا مقصود ہے، لہٰذا یہ تعریضِ فعل ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ارشاد فرمایا ہے۔ قصہ کوتاہ یہ ہوا کہ سنت سے تعریض ثابت ہے اور اس کی مثالوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ بالکل اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسی بات کی جو فی الحقیقت اگرچہ درست تھی، مگر بظاہر خلاف واقع تھی، لہٰذا اس ﴿بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا﴾ کو تعریض ہی کہنا چاہیے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس فعل کو ’’تعریض‘‘ کہا جا سکتا تھا، تو اسے ’’کذب‘‘ سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان اس سے بہت ارفع و بلند تھی کہ آپ مصلحتاً بھی ایسی بات کرتے جو اگرچہ درست تھی، مگر بظاہر خلاف واقع تھی۔ یہ بات اگرچہ بذات خود معمولی ہے، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہ نسبت بہت بڑی ہے، لہٰذا اسے ’’حسنات الأبرار سيئات المقربين‘‘ کے تحت کذب کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی تائید حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اجازت دی تھی کہ اپنے ’’اہل‘‘ کو کشتی میں سوار کر لیں۔ آپ نے سمجھا کہ ’’اہل‘‘ میں بیٹا بھی شامل ہے، اس لیے اس کو بھی کشتی پر بٹھانے کی اجازت طلب کی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے لفظ ’’اہل‘‘ کی تعبیر میں غلطی کی تھی اور اگرچہ یہ معمولی نوعیت کی تھی، کیونکہ بیٹا اہل میں یقیناً شامل ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی اس تعبیر کو ناروا فعل اور جہالت قرار دیا: ﴿ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔۔۔ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴾ (ھود: 46) جس طرح اس آیت کریمہ میں حضرت نوح کی لغزش کو ’’جہالت‘‘ کہا گیا ہے، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ’’تعریض‘‘ کو ’’کذب‘‘ کہہ دیا ہے، اب اگر قرآن کی تصریح کے مطابق ’’جاہل‘‘ کہنے سے حضرت نوح علیہ السلام کا ’’جاہل‘‘ ہونا ثابت نہیں ہوتا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’کذب‘‘ کا لفظ استعمال فرمانے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کاذب کیسے بن گئے؟ ان گزارشات سے معلوم ہوا کہ کذب کو تعریض پر محمول کرنا ایک بالکل صحیح اور معقول توجیہ ہے اور اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت پر کوئی زد نہیں پڑتی اور اس معنی کی رو سے کذبات ثلاثہ والی روایت ﴿إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا﴾ کے خلاف نہیں ہے۔ ---