کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 385
[1]
[1] حدیث ’’کذبات ثلاثہ‘‘ کا مطلب: حدیث مذکور پر بحث سے قبل یہ دیکھنا چاہیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول: ﴿ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا ﴾ (الأنبیاء: 63) کی حیثیت کیا ہے؟ اس کے متعلق علماء کے دو قول ہیں۔ علماءِ امت اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کا یہ ارشاد حقیقتاً درست ہونے کے باوجود ظاہری شکل میں خلاف واقع ہے، چنانچہ زیر بحث حدیث کا انکار کرنے والوں میں امام رازی سرفہرست ہیں، لیکن آپ نے بھی دبی زبان سے اس کا خلاف ہونا تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح مولانا مودودی نے بھی تصریح کی ہے کہ آپ کا یہ قول خلاف واقع تھا۔ جب اس قول کا خلاف واقع ہونا ایک مسلمہ امر ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس خلاف واقع قول کا کیا نام رکھا جائے: تعریض یا کذب؟ بعض علماء نے اسے مقام نبوت کے پیش نظر تعریض سے تعبیر کیا ہے اور بعض نے ’’حسنات الأبرار سيئات المقربين‘‘ کے تحت اسے ’’کذب‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ جن علماء نے ’’تعریض‘‘ کہا ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ تمام شرائع میں حتی کہ محمدی شریعت میں بھی، جو ہر اعتبار سے کامل اور اکمل ہے، تعریض کی قولاً و فعلاً اجازت ہے، چنانچہ مسند احمد میں روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے اپنے پڑوسیوں کی ایذا رسانیوں کی شکایت کی، آپ نے اسے مشورہ دیا کہ تمام اسباب گھر سے نکال کر گلی میں رکھ دو، جو کوئی سبب دریافت کرے، اسے کہو کہ اپنے فلاں پڑوسی کی بد اخلاقی سے تنگ آ کر جا رہا ہوں۔ سائل نے ایسا ہی کیا، چنانچہ لوگوں نے اس پڑوسی کو طعن و تشنیع کی اور اپنے سابقہ رویہ میں اصلاح کا وعدہ لیا اور پھر اس صحابی نے سامان واپس مکان میں رکھ لیا۔ ظاہر ہے کہ اس صحابی کا یہ کہنا کہ میں یہ مکان چھوڑ کر جا رہا ہوں، اگرچہ بظاہر صحیح تھا، لیکن حقیقت میں اس کا ارادہ ایسا کرنے کا نہ تھا اور اس نے یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ پر کیا۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھوٹ بولنے کی ترغیب دی تھی؟ اگر ایسا نہیں تو پھر اسے تعریض کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند افراد سے دریافت کیا کہ ((من أنتم)) (آپ کون ہیں؟) انہوں نے جواب دیا: ’’من ماء‘‘ (پانی سے) کیا ان حضرات کا یہ جواب جھوٹ تھا؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ بھی تعریض ہی ہے۔ اسی طرح جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سفرِ ہجرت پر روانہ ہوئے، تو راستہ میں جب کوئی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سوال کرتا کہ آپ کے ساتھ یہ رفیق کون ہے؟ تو آپ فرماتے: یہ میرے رہبر ہیں۔ لوگ اسے دنیاوی رستہ دکھانے والا سمجھتے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آخرت کے رہبر مراد لیتے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سوال کرنے والوں کو حق پہنچتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کاذب کہیں؟ اگر ایسا نہیں تو یقیناً یہ بھی آپ کی تعریض ہی تھی۔ عبداللہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب تک میں بصرہ کو جلا نہ ڈالوں گا اور وہاں کے رہنے والوں کو مصر نہ دھکیل دوں گا، اپنے سر کو صابن سے صاف نہیں کروں گا۔ حضرت عبداللہ بن سلمہ یہ سن کر بہت پریشان ہوئے، ابو مسعود بدری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم علی رضی اللہ عنہ نہ بصرہ کو نذر آتش کرے گا، نہ وہاں کے لوگوں کو مصر پہنچائے گا، کیونکہ اس کے سر پر ---