کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 382
[1]
[1] (2) سورت احزاب آیت نمبر (36) کے تحت لکھتے ہیں: ’’ابن عباس، مجاہد، قتادہ اور مقاتل بن حیان کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کر دیا تھا۔ اس طرح کا اظہار نا رضامندی آپ کے بھائی عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا۔‘‘ (تفهيم القرآن، طبع أول) اس مقام پر بھی موصوف ٹھوکر کھا گئے ہیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ اس واقعہ سے بہت پہلے جنگ احد میں شہادت پا چکے تھے۔ سیرت ابن ہشام (4/98) میں ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن حجش دونوں کو ایک قبر میں دفن کیا گیا تھا۔ (3) آیت: ﴿فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾ (البقرۃ: 203) کا ترجمہ یوں کیا ہے: ’’پھر جو کوئی دو دن پہلے واپس ہو گیا، تو کوئی حرج نہیں اور جو کسی نے دو دن زیادہ صرف کر دیے، تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ اس کے بعد حاشیہ میں تشریح یوں کی ہے: ’’ایام تشریق میں منیٰ سے مکے کی طرف واپس، خواہ دو دن پہلے ہو یا دو دن بعد، دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (تفهيم القرآن) مولانا کا راہوار فکر یہاں بھی ٹھوکر کھا گیا ہے۔ آیت کریمہ کا مطلب وہ نہیں جو موصوف نے بیان کیا ہے، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بارہ ذوالحجہ کو لوٹ آئے، تو کوئی بھی حرج نہیں اور اگر ایک دن تاخیر کر کے 13 کو پلٹ آئے، تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ نامعلوم مولانا نے دو دن پہلے اور دو دن بعد کا مطلب کس بنیاد پر اخذ کیا ہے؟ (4) آیت: ﴿وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ﴾ (الانبیاء: 79) کی تشریح بایں الفاظ کی ہے: ’’ان ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت داود علیہ السلام جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے، تو ان کی سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے اور پرندے ٹھہر جاتے تھے اور سماں بندھ جاتا تھا۔‘‘ (تفهيم القرآن، طبع أول) حضرت داود علیہ السلام کے معجزے کا جس طرح اس تشریح میں عقل اور تاویل نے حلیہ بگاڑا ہے، اس پر گرفت کرتے ہوئے مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں: ’’تسخیر جبال کا یہ معنی کرنا کہ حضرت داود علیہ السلام جب پہاڑوں میں تسبیح میں مشغول ہوتے تھے، تو پہاڑ ان کی آواز سے گونجنے لگتے تھے، قرآن کی تفسیر نہیں بلکہ تحریف ہے۔‘‘ (تفسیر ماجدی سورۃ انبیاء، آیت نمبر 79) (5) سورت فاتحہ کی آیت: ﴿الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴾ کی تشریح میں موصوف لکھتے ہیں: ’’رحمان‘‘ کے بعد لفظ ’’رحيم‘‘ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ہم ’’سخی‘‘ کے بعد ’’داتا‘‘ ’’گورے‘‘ کے بعد ’’چٹا‘‘ اور لمبے کے بعد ’’تڑنگا‘‘ بولتے ہیں۔‘‘ ---