کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 381
[1]
[1] کے اس مشورہ سے ہے، جو موصوف نے مولانا مودودی کو دیا ہے اور دوسرے کا تعلق حدیث زیر بحث سے ہے۔
ہم ذیل میں خوش نویس صاحب کے دونوں حصوں کے متعلق کچھ عرض کریں گے۔ امید ہے کہ آپ اپنے رفقاء سمیت ہماری گزارشات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے۔ وباللّٰه التوفيق
مولانا محمد اسماعیل صاحب کے مذکورہ مشورے پر تبصرہ کرتے ہوئے خوش نویس صاحب لکھتے ہیں:
’’آپ نے یہ تحریر فرما کر مولانا مودودی سے انصاف نہیں کیا کہ:
’’مولانا مودودی جب کبھی تفسیر و فقہ الحدیث کے مرغزار کا رخ کرتے ہیں، تو ان کا قلم ٹھوکریں کھانا شروع کر دیتا ہے، ان کا میدان دوسرا ہے۔‘‘ مفسرین، محدثین اور فقہاء کے سر پر سینگ آج تک نہیں دیکھے گئے۔ ع
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
(ہفت روزہ ایشیا: 5، نومبر 67ء، ص: 10)
خوش نویس صاحب کا اس مشورہ پر موئے آتش دیدہ کی طرح بل کھانا نامناسب اور بےجا ہے، کیونکہ اس کی بنیاد سالہا سال کے تجربے اور مولانا مودودی کی تحریرات ہیں۔ مولانا محمد اسماعیل صاحب نے اگرچہ اس سلسلہ میں متعہ، مسلک اعتدال، حیات مسیح اور دجال کی مثالیں پیش فرما دی تھیں، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ خوش نویس صاحب کی اپنے رفقاء سمیت ان سے تسلی نہیں ہوئی۔ اس سلسلہ میں ہم مزید چند شواہد پیش کرتے ہیں، جن سے بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ مولانا محمد اسماعیل صاحب کا یہ ارشاد بجا ہے کہ مولانا مودودی واقعتاً تفسیر و فقہ الحدیث کے راستوں سے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں اور بلاشبہ موصوف کا راہوار جب بھی اس مرغزار کا رخ کرتا ہے، تو ٹھوکریں کھانے لگتا ہے۔
(1) مولانا مودودی کا تفسیر کے میدان میں شاہکار ’’تفہیم القرآن‘‘ ہے۔ موصوف اس میں آیت ﴿فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ﴾ (النساء: 11) (اگر میت کی اولاد میں صرف دو سے زائد لڑکیاں ہوں، تو ان کو ترکہ میں سے دو تہائی ملے گا) کے تحت لکھتے ہیں:
’’دو سے مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی لڑکا نہ چھوڑا ہو اور اس کی اولاد میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں، تو خواہ دو لڑکیاں ہو یا دو سے زائد، بہرحال اس کے کل ترکہ کا 3/2 حصہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہو گا اور باقی ایک 2/1 دوسرے وارثوں کو، اس سے یہ حکم آپ سے آپ نکل آتا ہے کہ اگر میت کا صرف ایک بیٹا ہو، تو وہ 3/2 کا حق دار ہو گا اور کئی بیٹے ہوں تو 3/2 میں شریک ہوں گے۔‘‘ (تفهيم القرآن: 1/326 طبع اول)
خط کشیدہ عبارت غور سے پڑھیے۔ اس مقام پر مولانا محترم کا لڑکے کو لڑکیوں پر قیاس کرنا قطعی طور پر غلط اور اجماع امت کے خلاف ہے۔ یہ بات تو درس نظامی کا معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ لڑکا دوسرے وارثوں کی عدم موجودگی میں کل مال کا وارث ہوتا ہے اور اگر دوسرے وارث موجود ہوں تو ان کا حصہ ادا کرنے کے بعد باقی سب مال اسے ملتا ہے۔ غور فرمائیے! علم وراثت کا یہ معمولی سا مسئلہ بیان کرنے میں مولانا مودودی نے کیسی ٹھوکر کھائی ہے؟! ---