کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 380
آپ نے کون سا مناظرانہ کمال ظاہر فرمایا؟ ﴿ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللّٰه عَظِيمٌ﴾ (النور: 15) ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہیں مرغ قبلہ نما آشیانے میں سائل کو غور فرمانا چاہیے کذب کے معنی متعین ہو جانے کے بعد یہ حدیث ﴿ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا﴾ (مریم: 41) کی مؤید ہے یا معارض؟ [1]
[1] مؤلف رحمہ اللہ کا یہ مضمون جب ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں شائع ہوا، تو جماعت اسلامی کے تنظیمی جرائد میں اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور مولانا مودودی کی مدافعت میں کئی تحریریں سامنے آئیں، جس میں زیر بحث حدیث اور مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ پر کئی اعتراضات کیے گئے۔ ان تمام اشکالات کے جواب اور دفاع میں جماعت اسلامی ہی کے ایک سابق رکن اور نامور محقق عالم دین قاضی مقبول احمد صاحب ایم-اے نے قلم اٹھایا اور مذکورہ بالا حدیث اور مؤلف رحمہ اللہ پر کیے جانے والے اعتراضات کا بھرپور جواب دیا۔ اپنے مضمون میں جہاں انہوں نے مذکورہ اعتراضات و اتہامات کی حقیقت تشت ازبام کی، وہیں زیر نظر حدیث کے سلسلے میں کئی پہلوؤں پر مزید روشنی ڈالی۔ جزاه اللّٰه خيراً، چنانچہ اس اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر اس مضمون کو بھی ذیل میں درج کیا جا رہا ہے: ’’حدیث ’’ثلاث کذبات‘‘ اور مولانا مودودی‘‘ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے 20 اکتوبر کے شمارہ میں شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون ایک سوال کا جواب ہے، جس میں سائل نے دریافت کیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق ’’کذبات ثلاثہ‘‘ کی روایت قرآن کی آیت ﴿إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا﴾ (مریم: 41) کے خلاف ہے اور کیا اس روایت کی کوئی معقول اور قابل قبول توجیہ کی جا سکتی ہے؟ سائل نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ مولانا مودودی اس روایت کے منکر ہیں اور موصوف اسے غلط اور اسرائیلی کہاوت قرار دیتے ہیں۔ سوال چونکہ بہت اہم تھا، ایک طرف صحیح حدیث کی حیثیت خطرہ میں تھی اور دوسری طرف ایک جلیل القدر پیغمبر کی عصمت کا معاملہ تھا، لہٰذا مولانا موصوف نے اس سوال کا جواب پورے غوروفکر اور تحقیق و تفحص کے بعد تحریر فرمایا۔ دوران بحث آپ نے مولانا مودودی کی غلطی کی نشاندہی فرمائی اور مشورہ دیا کہ موصوف کو ان دقیق مباحث سے کترا کر گزرنا چاہیے، کیونکہ تفسیر اور فقہ الحدیث ان کا اصل میدان نہیں ہیں۔ مولانا محترم کا یہ ارشاد جماعت اسلامی کے بعض نازک طبع رفقاء پر گراں گزرا اور انہوں نے، جیسا کہ شخصیت پرستی کا اصول ہے، آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ کر مولانا مودودی کی حمایت اور زیر بحث حدیث کی تغلیط شروع کر دی۔ چنانچہ 5 نومبر کے ’’ایشیا‘‘ میں محمد صدیق صاحب خوش نویس نے ’’مکتوب مفتوح‘‘ لکھ کر مولانا محمد اسماعیل صاحب کو مخاطب کیا ہے۔ یہ صاحب اگرچہ مسلکاً اہلحدیث ہیں، لیکن آج کل اقامتِ دین کا شغل رکھتے ہیں۔ خوش نویس صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ کا تعلق مولانا محمد اسماعیل صاحب ---