کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 379
نبی کو جھوٹا کہنا تو کفر ہے۔ بخاری کو صحیح ماننے والے نبی کو جھوٹا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ بخاری کا تمام تر انحصار نبوت کی صداقت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی صداقت پر ہے۔ مولانا مودودی کے راہوار قلم کی جولانیوں کا میدان بالکل دوسرا ہے، جب بھی وہ اپنا میدان چھوڑ کر تفسیر اور فقہ الحدیث کے مرغزاروں کا رخ فرماتے ہیں، ان کا قلم ٹھوکریں کھانا شروع کر دیتا ہے۔ مولانا سے گزارش ہے وہ ان راہوں سے اگر کترا کر گزر جائیں تو نہ ان کے مقام کی رفعتوں میں فرق آئے اور نہ ان کے ادب و احترام کو نئے پیمانوں سے ناپنا پڑے۔ رہے مولانا آزاد تو کیا اس صراحت کی ضرورت ہے کہ کسی شخصیت کے محاسن کی تحسین کی جا سکتی ہے، لیکن مساوی اور غلطیوں کی تقلید کبھی قابل رشک نہیں ہو سکتی! استدلال کی سطحیت: حدیث اور اصول حدیث بحمداللہ ایک زندہ اور متحرک فن ہے۔ منکرین حدیث پون صدی میں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے، بلکہ علمی حلقوں میں مضحکہ بن کر رہ گئے ہیں۔ حدیث پر اعتراض کرنے میں تنقید کے اصول نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ محدثین مبہم جرح کو قبول نہیں فرماتے، یعنی کسی راوی کو مجمل طور پر ضعیف کہہ دینا کافی نہیں، بلکہ ضعف کا تذکرہ صراحتاً اور تفصیلاً ہونا چاہیے۔ [1] آپ حضرات اپنے کردار پر غور فرمائیں، آپ نہ راوی کا نام لیتے ہیں، نہ جرح کی تفصیل فرماتے ہیں۔ یہ فن کے لحاظ سے جرح کی کون سی قسم ہے؟ نہ راوی کا پتہ، نہ جرح کا علم، جیتی جاگتی حدیث موضوعات کے مردہ خانہ میں بھیج کر آپ مطمئن ہو گئے کہ اب کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہزار احترام کے باوجود جہالت اور جسارت ناقابل برداشت ہے۔ حدیث کو جھوٹا کہنا اتنا آسان نہیں جتنا جناب نے سمجھا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے قریباً چھ مقامات پر ذکر فرمایا ہے، [2] آپ کے اس مبہم نشانے کا ہدف ہر راوی ہو سکے گا، جن کی تعداد بیسیوں تک پہنچے گی۔ بات ایک حدیث کی نہیں، اس کا اثر ان تمام احادیث پر پڑے گا، جو مختلف ابوابِ علم میں ان ائمہ سے مروی ہیں۔ آپ بھی اپنے جرم کی نوعیت پر غور فرمائیں،
[1] یعنی اسبابِ جرح کا مفصل تذکرہ بھی لازمی ہے، تفصیل کے لیے دیکھیں: الكفاية (ص: 108) مقدمة ابن الصلاح (ص: 61) فتح المغيث (3/361) تدريب الراوي (1/308) الرفع والتكميل (ص: 79) [2] صحيح البخاري، برقم (2104، 2492، 3179، 4796، 6550)