کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 378
[1]’’تعریضات جھوٹ سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔‘‘ زندگی کی مشکلات پر غور کر لیا جائے تو ہر انسان پر ایسے مواقع آتے ہیں، جن میں صاف بات کی بجائے تعریض ہی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ دنیائے صداقت کو قائم رکھنے کے لیے اور جھوٹ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تعریضات کی راہ کھلی رہے، جسے سائل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وصفِ صدیقیت سے متعارض سمجھ کر صدیقیت کی راہ میں ضیق پیدا کر دی ہے۔ جس قانون میں لچک نہ ہو، وہ یقیناً ٹوٹ کر رہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ ہجرت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: آپ کے رفیق کون ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’ هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ ‘‘ [2]1 یہ بزرگ میری راہنمائی فرماتے ہیں۔ کس قدر تعریض ہے؟ جو فرمایا، وہ بالکل سچ تھا، مگر خطرات کا بھی سدباب ہو گیا۔ تعریضات ہر زبان کے ادیبات عالیہ میں موجود ہیں۔ جس زبان میں تعریضات نہیں، وہ زبان نامکمل ہے اور لطافت سے خالی! مولانا مودودی: مجھے مولانا مودودی سے تعجب نہیں۔ وہ جب بھی علم کی ان متعارف راہوں سے گزرے، انہوں نے ٹھوکر کھائی۔ متعہ کا مسئلہ، مسلکِ اعتدال، حیاتِ مسیح، دجال وغیرہ میں ان کی جدت نوازیاں کامیاب ثابت نہیں ہوئیں۔ ان کے راہوار قلم کی جولانیوں کا میدان دوسرا ہے۔ تعجب مولانا آزاد اور امام رازی سے ہے۔ یہ جواب ’’راوی کو جھوٹا کہنا نبی کو جھوٹا کہنے سے بہتر ہے۔‘‘ بے حد سطحی ہے۔
[1] ”تفرد برفعه داود بن الزبرقان، وروي من وجه آخر ضعيف، عن علي رضي اللّٰه عنه مرفوعاً“ (سنن البيهقي: 10/199) امام ابن عدی رحمہ اللہ داود بن الزبرقان کے ترجمے میں یہ مرفوع روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’وهذا يرفعه عن سعيد بن أبي عروبة داود بن الزبرقان، وغيره أوقفه‘‘ (الكامل: 3/96) نیز ’’داود بن الزبرقان‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ولداود بن الزبرقان حديث كثير غير ما ذكرته، وعامة ما يرويه عن كل من روي عنه مما لا يتابعه أحد عليه، وهو في جملة الضعفاء الذي يكتب حديثهم‘‘ نیز دیکھیں: كشف الخفاء، برقم (712) السلسلة الضعيفة (3/213) رقم الحديث (1094) [2] 1 صحيح البخاري: كتاب فضائل الصحابة، باب هجرة النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و أصحابه إلي المدينة، رقم الحديث (3699)