کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 377
مخاطب کو وہ یہ واقع سمجھانا چاہے تو یہ دونوں لحاظ سے صدق ہو گا، اور اگر خلافِ واقع خبر دے اور مخاطب کو خلافِ واقع کچھ تیسرا معنی بتانا چاہے، جو فی الحقیقت واقع نہیں، تو یہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہے۔ اگر متکلم صحیح بات حسب واقع بیان کرے، لیکن مخاطب کو اس سے نا آشنا رکھنا چاہے، تاکہ وہ متکلم کے مقصد کو نہ سمجھ سکے، تو وہ متکلم کے قصد کے لحاظ سے صدق ہے اور اس کے افہام کے لحاظ سے کذب ہے، اسے ہی تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے، اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے کذب سے تعبیر فرمایا، حالانکہ بات صحیح ہے اور واقع کے مطابق ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کذب بہرحال قبیح ہے، اس کی مستحسن صورت تعریض اور توریہ ہے، جو حقیقت کے لحاظ سے صدق ہے، گو افہام کے لحاظ سے اسے کذب کہا جا سکتا ہے۔‘‘ شیخ الاسلام رحمہ اللہ ’’الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’والخبر تارة يكون مطابقا لمخبره، كالصدق المعلوم أنه صدق، و تارة لا يكون مطابقا لمخبره، كالكذب المعلوم أنه كذب ۔۔۔ وقد تكون المطابقة في عناية المتكلم، وقد يكون في إفهام المخاطب، إذا كان اللفظ مطابقا لما عناه المتكلم، ولم يطابق إفهام المخاطب، فهدا أيضا قد يسميٰ كذبا، وقد لا يسمي، ومنه المعاريض، ولكن يباح للحاجة‘‘ [1](ملخصاً: 4/288) شیخ الاسلام نے کسی قدر اختصار سے وہی فرمایا، جس کی تفصیل ’’مفتاح السعادة‘‘ کے حوالہ میں ہو چکی ہے۔ ’’وفي المعاريض مندوحة عن الكذب‘‘ [2]
[1] الجواب الصحيح (6/452) [2] یہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ دیکھیں: الأدب المفرد( ص: 297) مصنف ابن أبي شيبة (5/282) سنن البيهقي (10/199) یہ الفاظ مرفوعاً بھی مروی ہیں، لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’هذا هو الصحيح موقوفاً‘‘ (شعب الإيمان: 4/203، سنن البيهقي: 10/199) اور مرفوع روایت کے متعلق فرماتے ہیں: ---