کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 376
به طائفة معينة، بل هو وارد عليكم بعينه، وقد فتح اللّٰه الكريم بالجواب عنه، فنقول: الكلام له نسبتان: نسبة إلي المتكلم وقصده و إرادته، و نسبة إلي السامع، و إفهام المتكلم إياه مضمونه، فإذا أخبر المتكلم بخبر مطابق للواقع، وقصد إفهام المخاطب، فهو صدق من الجهتين، وإن قصد خلاف الواقع، وقصد مع ذلك إفهام المخاطب خلاف ما قصد، بل معني ثالثا لا هو الواقع ولا هو المراد، فهو كذب من الجهتين بالنسبتين معا، وإن قصد معني مطابقا صحيحا، وقصد مع ذلك التعمية علي المخاطب وإفهامه خلاف ما قصده، فهو صدق بالنسبة إلي قصده، كذب بالنسبة إلي إفهامه، ومن هذا الباب التورية والمعاريض، وبهذا أطلق عليها إبراهيم الخليل عليه السلام الكذب مع أنه الصادق في خبره، ولم يخبر إلا صدقا، فتأمل هذا الموضع الذي أشكل علي الناس، وقد ظهر بهذا أن الكذب لا يكون قط إلا قبيحا، وإن الذي يحسن و يجب إنما هو التورية، هي صدق، وقد يطلق عليه الكذب بالنسبة إلي الإفهام لا إلي العناية‘‘ [1](مفتاح السعادة: 2/39) ’’اگر کہا جائے جب یہ تعریض تھی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کذب کیوں کہا؟ ہم کہتے ہیں: اس کا جواب ہمارے ذمہ نہیں۔ ہمارا ذمہ صرف اس قدر تھا کہ تمہارے استدلال کا ابطال ہو جائے، وہ ہو چکا۔ اب جو تبرعاً اور تکمیلِ فائدہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ یہ مقام مشکل ہے، لوگوں نے اس مقام پر جو کچھ کہا، اس سے تسکین نہیں ہوتی اور یہ سوال کسی خاص گروہ سے نہیں، بلکہ ہمارے مخالفین پر وارد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو انکشاف فرمایا ہے، وہ حاضر ہے: ہر کلام کی دو نسبتیں ہوتی ہیں: ایک متکلم کے قصد اور ارادہ سے، اور ایک سامع اور متکلم کو اسے سمجھانے سے متعلق ہے۔ جب متکلم ایسی خبر دے جو واقع کے مطابق ہو اور
[1] مفتاح دار السعادة (2/36)