کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 375
’’حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے تین کذبات کا ذکر فرما کر شفاعت سے انکار فرما دیں گے۔‘‘ دوسرے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کذبات کا ذکر فرمایا۔ یہ حدیث بخاری نے صحیح میں متعدد مقامات پر ذکر کی ہے: ((لَمْ يَكْذِبْ إبْرَاهِيمُ إلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ)) [1](كتاب الأنبياء، صحيح بخاري) اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ تعریض ہے، جسے من وجه کذب کہا جا سکتا ہے، تو متکلم کو اختیار ہے جس عنوان سے چاہے تعبیر کرے۔ نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ شفاعت سے گریز فرما رہے ہیں، انہیں وہی عنوان اختیار کرنا چاہیے، جو اس مقصد کے لیے مفید ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس قسم کی تعریض بھی عمر میں تین ہی دفعہ فرمائی۔ اس تعریضی کذب کے مواقع زیادہ نہیں، یہ بھی من وجہ صدق ہے۔ حقیقت میں مقام توحید کی طرف ایک مجاہدانہ قدم ہے اور عصمت کے لیے ذریعہ، اس لیے ﴿ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴾ (مریم: 41) کی تائید ہے، تعارض ہے ہی نہیں۔ حضرت نے صراحتاً فرمایا تو بھی سچ تھا اور تعریضاً فرمایا تو بھی سچ تھا۔ ﴿ صِدِّيقًا ﴾ کا معنی یہی ہے کہ: ’’لم يكذب قط أو لم يكذب إلا قليلا‘‘ [2] (لسان العرب، راغب، المحيط، قاموس، أقرب الموارد وغير ذلك من أسفار اللغة) اب اس کی تائید اور وضاحت میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ حسن اور قبیح عقلی اور شرعی کی بحث میں اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان تعریضات کو کذب سے کیوں تعبیر فرمایا؟ کہتے ہیں: ’’فإن قيل: كيف سماها إبراهيم كذبات، وهي تورية، و تعريض صحيح؟ قيل: لا يلزمنا جواب هذا السؤال، إذا الغرض إبطال استدلالكم وقد حصل، فالجواب تبرع منا و تكميل للفائدة، ولم أجد في هذا المقام للناس جوابا شافيا، يسكن القلب إليه، وهذا السؤال لا يختص
[1] صحيح البخاري: كتاب الأنبياء، باب قول اللّٰه تعاليٰ: ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰه إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾ رقم الحديث (3179) [2] مفردات القرآن (1/573) التعاريف للمناوي (ص: 451) تاج العروس (26/13)