کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 373
﴿ إِنِّي سَقِيمٌ ﴾ وقَوْلُهُ: ﴿ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا ﴾))
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عمر میں تین دفعہ بظاہر غلط بیانی کی۔ دو مقام پر تو ذات حق کی عظمت کا تحفظ مطلوب ہے، تیسرا مقام بھی گو حدود اللہ کی حفاظت ہی سے متعلق ہے، لیکن اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی ذات کا بھی دخل ہے، کیونکہ یہ بیوی کی عصمت کا معاملہ ہے، چنانچہ بعض روایات میں ’’كلهن في اللّٰه ‘‘ (فتح الباري: 232) مرقوم ہے۔ [1] یعنی یہ تینوں مقام ذات حق کی عظمت اور برتری قائم کرنے کے سلسلہ میں تھے۔ اسی متن میں تیسرے واقعہ کی تفصیل خود حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منقول ہے۔ ایک ظالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت سارہ کے متعلق دریافت کیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: یہ میری بہن ہے:
((فأتَى سَارَةَ قالَ: يا سَارَةُ: ليسَ علَى وجْهِ الأرْضِ مُؤْمِنٌ غيرِي وغَيْرَكِ، وإنَّ هذا سَأَلَنِي فأخْبَرْتُهُ أنَّكِ أُخْتِي، فلا تُكَذِّبِينِي)) [2](صحيح بخاري: 1/474)
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں نے ظالم کے پاس تمہیں اپنی بہن کہا ہے، تم میری تکذیب نہ کرنا، کیونکہ دین کے لحاظ سے تم میری بہن ہو اور اس سرزمین میں تمہارے سوا کسی سے میرا یہ دینی رشتہ نہیں ہے۔‘‘
اس تعریض کی حقیقت حضرت سارہ سے خود ظاہر فرما دی کہ اس سے دینی اخوت مراد ہے، گو ظالم اس سے بظاہر نسبی اخوت سمجھے گا۔ اسی تعریض سے یہی مغالطہ مقصود ہے، تاکہ عصمت بھی محفوظ رہے اور شر بھی نہ پہنچ سکے۔
ایسے حالات میں عصمت کی حفاظت، حدود اللہ کے احترام اور مشرکانہ درباروں کی بربادی کے لیے اگر واضح جھوٹ بھی بولا جائے، تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعریض کی راہ اختیار فرمائی، جو درحقیقت صحیح ہے اور اس کی سچائی معلوم۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا:
’’وإلا فالكذب المحض في مثل تلك المقامات يجوز، وقد يجب
[1] مسند أبي يعلي (10/426) فتح الباري (6/392) عمدة القاري (15/249)
[2] صحيح البخاري، رقم الحديث (3179)