کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 372
ابراہیم علیہ السلام کو آخری سزا سنا دی: ﴿ حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ﴾ (الانبیاء: 68) ’’(بات تو صاف ظاہر ہے) پھر بھی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے، تو اس نوجوان کو جلا ڈالو۔‘‘ 2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علالت: دوسرا واقعہ یہ تھا کہ وہ لوگ کسی تہوار یا کسی اجتماعی کام کے لیے جانا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے ہمراہ چلیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اپنے حلفی بیان کے مطابق بتوں کو توڑنے کا پروگرام موجود تھا۔ ستاروں پر نگاہ ڈال کر فرمایا: ﴿ إِنِّي سَقِيمٌ ﴾ (الصافات: 89) ’’میری طبیعت خراب ہے۔‘‘ بیمار یقیناً تھے، لیکن نہ اس قدر کہ تھوڑی دور تک بھی چل نہ سکیں۔ قوم نے اس تعریض سے یہی سمجھا کہ وہ چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ بیمار نے ان کے جانے کے بعد پورے بت خانہ کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ ﴿ سَقِيمٌ ﴾ کے اظہار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اجمال سے کام لیا، نہ قوم نے تفصیل پوچھی نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی ضرورت سمجھی۔ یہ ابہام اور تعریض تھی، جو بالکل سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی، مگر قوم نے اسے واقعی اہم بیماری سمجھا۔ انہیں حق ہے کہ اس من وجه صداقت کو کذب سےتعبیر کریں۔ اس لیے تعریض اور توریہ کو من وجه ’’کذب‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ سائل کے سوال کی روشنی میں دیکھا جائے، تو ان واقعات میں خود قرآن عزیز میں تعارض ہے۔ ایک ایسا مریض جو قوم کی نظروں سے ذرا اوجھل ہوتے ہی پورے بت خانے کا صفایا کر سکتا ہے، سینکڑوں مصنوعی خداؤں کو چند گھڑیوں میں پیوند خاک کر سکتا ہے، اس کی بیماری کی کمیت اور کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ یہ تعریض ہی کے پیمانہ سے ناپی جا سکتی ہے، جس کا اندازہ دوست اور دشمن اپنے نقطہ نظر سے لگا سکیں۔ 3۔ بیوی یا بہن: صحیح بخاری میں یہ حدیث قریباً پانچ مقامات پر مذکور ہے۔ [1] کہیں پورا متن، کہیں مختصر۔ کہیں تعلیقاً، کہیں مرفوعاً باسند۔ ’’كتاب الأنبياء‘‘ میں مفصلاً موجود ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((لَمْ يَكْذِبْ إبْرَاهِيمُ عليه السَّلَامُ إلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ، ثِنْتَيْنِ منهنَّ في ذَاتِ اللّٰه عزَّ وجلَّ، قَوْلُهُ
[1] صحيح البخاري، برقم (2104، 2492، 3179، 4796، 6550)