کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 371
بات ڈھکی چھپی نہ تھی۔ حلفی اعلان ان کے کانوں میں تھا، فوراً ابراہیم علیہ السلام کو ملزم قرار دیا گیا:
﴿سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ﴾ (الانبیاء: 60)
’’ایک ابراہیم نامی نوجوان کو ہم نے سنا تھا، وہ ان کو برا بھلا کہتا تھا۔‘‘
اسی وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلانے کا فیصلہ ہوا:
﴿فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ﴾ (الانبیاء: 61)
’’اسے کھلی عدالت میں پیش کر کے اس کے خلاف شہادت قائم کرو۔‘‘
اس قدر کھلے اور پیش افتادہ واقعات میں نہ جھوٹ کی گنجائش ہے نہ انکار کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کی بے وقوفی کو نمایاں کرنے کے لیے جواب میں تعریض کی صورت اختیار کی۔ کھلا اقرار نہیں کیا، اس لیے کہ واقعہ تو معلوم ہی تھا۔ فرمایا:
﴿ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ﴾ (الانبیاء 63)
امام رازی نے ﴿ فَعَلَهُ ﴾ پر وقف کر کے تقدیر عبارت اس طرح فرمائی ہے:
’’بل فعله من فعله‘‘[1]’’جس نے کیا تم انہیں سے دریافت کرو، بہتر ہے یہی بتا دیں۔‘‘
زبان کے لحاظ سے حقیقت کے اظہار میں ایک گونہ اغماض کے وقتی مقاصد اور تبلیغی لحاظ سے یہی مناسب ہے کہ ان کا جد امجد یہی بڑا ٹھاکر ہی اس ہنگامے کا موجب ہے، اس لیے ان مقتولوں کے نزعی بیان لو اور اس بڑے ٹھاکر سے پوچھو، جس کے سامنے یہ ہنگامہ ہوا۔ سارا زور ﴿ فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ ﴾ پر ہے، جس کے نتیجہ میں مجرمانہ ندامت کے ساتھ ان لوگوں نے سر عدالت اقرار کیا:
﴿ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَـٰؤُلَاءِ يَنطِقُونَ ﴾ (الانبیاء: 65)
’’سر نیچا کیے ندامت سے اقرار کیا، تم جانتے ہو یہ (بیچارے) بول تو نہیں سکتے۔‘‘
اصل مقصد یہ تھا کہ ان کی زبان سے ان کے دھرم کی کمزوری ظاہر ہو جائے، ورنہ دونوں فریق جانتے تھے کہ جسے بولنے کی ہمت نہیں، ساتھیوں کو بچانے کی قدرت تھی، اسے توڑنے کی قدرت کہاں سے ہو گی؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس حکیمانہ تعریضی اقرار کے بعد عدالتِ وقت نے حضرت
[1] تفسير الرازي (22/157)