کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 370
ثلاث کذبات:
اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان تین واقعات پر غور فرمائیں: یہ صدق ہیں یا کذب یا تعریض؟ اور یہ احادیث قرآن سے متعارض ہیں یا قرآن کے موافق؟ ان تین واقعات میں سے دو تو قرآن عزیز میں موجود ہیں اور ایک حدیث میں۔ مودودی صاحب اور مولانا آزاد ایسے حضرات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خیر اندیش پہلے قرآن کی قرآن سے تطبیق اور تعارض رفع فرمائیں، تیسرے واقعہ کی تطبیق ہم گزارش کر دیں گے، ان شاء اللہ۔ بخاری کی صحت پر آنچ آئے گی، نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت پر دھبہ آئے گا، نہ رواۃِ حدیث اور ائمہ سنت کو جھوٹا کہنے کی مجرمانہ کوشش کی ضرورت محسوس ہو گی۔ آپ حضرات کیا تطبیق دیتے ہیں اور قرآن کو تعارض سے کس طرح بچاتے ہیں؟ اس کے لیے ہم گوش بر آواز ہیں۔ ہماری گزارش سن لیں:
1۔ بت شکنی:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب قوم کو بت پوجتے دیکھا تو فرمایا:
﴿مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ﴾ (الانبیاء: 52)
’’ان ٹھاکروں کی مورتیوں کے ساتھ تم نے کیا تماشا بنا رکھا ہے؟‘‘
پھر پوری صراحت سے حلفی اعلان فرمایا:
﴿تَاللّٰه لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ﴾ (الانبیاء 57)
’’تمہاری غیر حاضری میں یقیناً تمہارے ان ٹھاکروں کا تیا پانچہ کر کے رہوں گا۔‘‘
غور فرمائیے! اس اعلان اور حلفی بیان کے بعد جھوٹ بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قوم اپنے مشاغل کے لیے چلی گئی۔ ان کی غیر موجودگی میں پورے اطمینان سے بڑے ٹھاکر کے سوا باقی ٹھاکروں کو ریزہ ریزہ کر دیا گیا۔ واپسی پر جب بت خانہ ویران پایا تو کہرام مچ گیا۔ بڑے حزن و ملال سے قوم کے چوہدریوں نے کہا:
﴿مَن فَعَلَ هَـٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ﴾ (الانبیاء: 59)
’’کسی بڑے ظالم نے ہمارے ٹھاکروں کا یہ برا حال کر دیا ہے۔‘‘