کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 37
جملوں میں بڑے نازک فقہی مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں۔ ایک طبیب حاذق کی طرح نشتر بھی چلاتے ہیں، مگر کہیں ٹیس محسوس نہیں ہونے دیتے۔ اپنے مخاطب کا بھرپور تعاقب کرتے ہیں، مگر اس کے ادب و احترام کے منافی کوئی چیز نوک قلم پر نہیں لاتے۔‘‘ [1] فتنہ انکار حدیث کے تدارک میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی جہود مبارکہ اور مساعی جمیلہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں، جس کی زندہ دلیل ان کی مبارک تحریرات اور اقران و اماثل کی شہادت ہے۔ حضرت سلفی رحمہ اللہ کی دفاعِ حدیث کے باب میں لکھی جانے والی تحریروں کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز ان کا اچھوتا اندازِ بیان اور نادر المثال طرز استدلال ہے، چنانچہ حضرت مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ بنام مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ اپنے ایک نجی مکتوب میں فرماتے ہیں: ’’حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب کے مقالے حجیت حدیث کے متعلق بالکل جدید اور نرالے ہیں۔ شاید اس سے پہلے یہ طرز استدلال اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ خوب لکھا ہے: ’’متع اللّٰه المسلمين بطول حياته ونفعهم بعلومه ومعارفه إلي يوم القيامة‘‘ (الاعتصام، یکم دسمبر 1950ء) فتنہ انکار حدیث کے تدارک میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی جہود و مساعی کو مندرجہ ذیل مختلف اور متنوع جہات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: 1۔ تحریر و انشا: حضرت سلفی رحمہ اللہ کی تحریر و انشا کا پسندیدہ موضوع حفاظت حدیث، حجیت حدیث، جمع و تدوینِ حدیث اور محدثین کرام کی خدمات جلیلہ کے دفاع و اعتراف پر مبنی ہوا کرتا تھا، بلکہ بقول استاد محترم حضرت حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ جب حضرت سلفی رحمہ اللہ حدیث نبوی اور محدثین کرام کے خلاف کوئی تحریر دیکھ لیتے، تو اس وقت تک اطمینان سے نہیں بیٹھتے تھے، جب تک اس کا جواب نہ دے لیتے۔ حدیث و سنت اور مسلک سلف سے محبت اور شیفتگی ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان کے قلم سے ایسی بے مثال تحریرات منصہ شہود پر آئیں، جو ہر دور میں اعداءِ سنت کے لیے تازیانہ
[1] ’’مسلک اہل حدیث اور تحریکات جدیدہ‘‘ عرض از مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ (ص: 4)