کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 369
اسی طرح راغب نے مفردات القرآن میں فرمایا۔ [1] باقی لغت کی کتابوں میں اس قسم کی تفصیل موجود ہے۔[2]
اس تفصیل کے بعد ظاہر ہے کہ جس کذب سے قرآن عزیز نے منع فرمایا ہے، اس میں دو شرطیں ہیں۔ اول یہ ہے کہ وہ واقع کے خلاف ہو۔ دوسرا یہ کہ متکلم کا ارادہ ہو کہ وہ مخاطب کو حقیقت سے آگاہ نہ ہونے دے۔ اگر ان دونوں میں سے ایک چیز بھی کم ہو، تو کذب کا اطلاق صحیح اور حقیقت پر مبنی نہیں ہو گا۔ قرآن عزیز نے منافقین کے تذکرہ میں فرمایا:
﴿إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللّٰه ۗ وَاللّٰه يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللّٰه يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ﴾ [3] (منافقون)
’’منافق کہتے ہیں کہ تم اللہ کے رسول ہو، اللہ گواہ ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘
یہاں منافقین کی صحیح بات کی بھی تصدیق نہیں فرمائی، اس لیے کہ یہ ان کے ضمیر کی آواز نہیں، بلکہ ضمیر کی آواز اس کے خلاف ہے۔ صدق اور کذب میں جس طرح واقع یا محکی عنہ کو دخل ہے، اسی طرح ارادے کو بھی دخل ہے۔ صدق اور کذب کے معنی سمجھ لینے کے بعد ایک تیسری چیز بھی ذہن میں آ جانی چاہیے۔ جب متکلم خبر واقع اور مخبر عنہ کے مطابق دے، لیکن اس واقع اور حقیقت کو مخاطب سے مخفی رکھنا چاہے، تو اسے تعریض یا توریہ کہتے ہیں۔ یہ حقیقت میں سچ ہوتا ہے، لیکن ایک لحاظ سے اسے جھوٹ کہا جا سکتا ہے۔ راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’والتعريض كلام له وجهان من صدق و كذب أو ظاهر و باطن، قال: ﴿فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ﴾‘‘ (ص: 102) [4]
’’تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے، جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں۔ من وجه صدق ہے اور من وجه کذب، جیسے ﴿فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ﴾ (البقرۃ: 235) سے واضح ہے۔‘‘
[1] مفردات القرآن (2/288)
[2] لسان العرب (1/708) الفائق للزمخشري (3/250) القاموس المحيط (ص: 166) تاج العروس (1/897)
[3] المنافقون (1)
[4] مفردات القرآن (2/85)