کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 367
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین متین: کیا بخاری شریف کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے؟ نیز بخاری شریف کی وہ حدیث جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ کا تذکرہ ہے، صحیح ہے یا ضعیف؟ یہ حدیث قرآن مجید کی آیت ﴿إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا﴾ (مریم: 41) سے متعارض ہے؟ اگر حدیث صحیح ہے، تو یہ تعارض کیسے دور ہو سکتا ہے؟ مولانا مودودی نے تفہیم القرآن جلد سوم میں اسی حدیث کے متعلق لکھا ہے کہ ایک پیغمبر کو جھوٹا ثابت کرنے کی بجائے بخاری کے راویوں کو جھوٹا کہنا آسان ہے۔ بينوا توجروا۔ الجواب و باللّٰه التوفيق: حدیث ((لَمْ يَكْذِبْ إبْرَاهِيمُ)) [1]حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وصفِ صدیقیت کی مؤید ہے۔ اصل مغالطہ اس سے ہوا کہ عرف عام میں جھوٹ اور کذب کو ہم معنی سمجھ لیا گیا، اسی طرح صدق اور سچ کو مرادف سمجھ لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں ان دونوں لفظوں کے معنی ہماری زبان سے وسیع ہیں۔
[1] صحيح البخاري: كتاب الأنبياء، باب قول اللّٰه تعاليٰ: ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰه إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾ رقم الحديث (3179) صحيح مسلم: كتاب الفضائل، باب من فضائل إبراهيم الخليل عليه السلام، رقم الحديث (2371) امام بخاری رحمہ اللہ سے پیشتر اور بعد میں آنے والے کئی دیگر محدثین نے بھی اس حدیث کو اپنی کتب میں ذکر کیا ہے، لیکن ان کی طبائع سلیمہ کو یہ حدیث کبھی نہیں کھٹکی اور نہ انہوں نے اس حدیث سے کبھی کوئی خلش محسوس کی۔ مثلاً دیکھیں: مسند أحمد (1/281، 295، 2/403، 435، 3/244، مسند الطيالسي (ص: 353) سنن الترمذي، برقم (2434، 2148 سنن النسائي الكبريٰ (5/298) مسند أبي يعلي (4/213، 5/396، 10/426) مصنف ابن أبي شيبة (6/307) الإيمان لابن منده (2/837) التوحيد لابن خزيمة (2/595) المعجم الأوسط (1/291) سنن البيهقي (7/366) تعظيم قدر الصلاة للمروزي (1/228)