کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 362
فقہاءِ حنفیہ تعارضِ ادلہ میں درایت کو منجملہ موجباتِ ترجیح سے سمجھتے ہیں۔ تنقیدِ روایت میں اسے معیار کا مقام ان میں بھی نہیں۔ ترجیح اور معیار میں بین فرق ہے۔
جماعت اسلامی کے زعماء اس مسئلہ میں جس انداز سے گفتگو فرما رہے ہیں، معتزلہ بھی صراحتاً اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ قدماء احناف کا مسلک درایت کے متعلق ائمہ حدیث کے بالکل موافق ہے۔ وجہ ترجیح کے طور پر سب سے پہلے اس کا تذکرہ قاضی عیسیٰ بن ابان (221ھ) نے کیا۔ قاضی عیسیٰ بن ابان فروع میں حنفی ہیں اور اصول میں معتزلی۔ ان کا مفصل ترجمہ مولانا عبدالحی لکھنوی کی کتاب تراجم الحنفیہ میں ملے گا، جس کا نام ’’الفوائد البهية‘‘ ہے۔ [1]
اصول، مصنفہ امام علی بن محمد بن حسین بزدوی (481ھ) کی شرح ’’كشف الأسرار‘‘ الامام عبدالعزیز بن احمد بخاری (448ھ) میں اس کی صراحت موجود ہے کہ درایت کا اعتبار سب سے پہلے قاضی عیسیٰ بن ابان نے کیا:
’’واعلم أن ما ذكرنا من اشتراط فقه الراوي لتقديم خبره علي القياس مذهب عيسيٰ بن أبان، و اختاره القاضي الإمام أبو زيد، و خرج عليه حديث المصراة، و خبر العرايا، و تابعه أكثر المتأخرين، و أما عند الشيخ أبي الحسن الكرخي ومن تابعه من أصحابنا فليس فقه الراوي بشرط لتقديم خبره علي القياس، بل يقبل خبر كل عدل ضابط إذا لم يكن مخالفا للكتاب والسنة المشهورة، و يقدم علي القياس، قال أبو اليسر: و إليه مال أكثر العلماء۔۔۔الخ‘‘ (كشف الأسرار: 2/703، مطبوعه مصر)
مقصد یہ ہے، جب کوئی حدیث قیاس کے خلاف اور متعارض ہو تو عیسیٰ بن ابان کے نزدیک اگر اس کا راوی فقیہ ہو تو یہ حدیث قیاس پر مقدم ہو گی، ورنہ قاضی عیسیٰ بن ابان حدیث کو رد کرتے ہیں اور قیاس پر عمل کرتے ہیں۔ متاخرین فقہاء نے عیسیٰ بن ابان کی رائے کو قبول کیا۔ امام ابو الحسن کرخی اور اکثر علماء اس کے خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک جب راوی عادل اور ضابط ہو تو اس کی روایت مقبول ہو گی، قیاس کے خلاف ہو یا موافق۔ الخ
[1] الفوائد البهية في تراجم الحنفية (ص: 61)