کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 361
کے الفاظ پر جرح ہو، جو میرے خیال میں کسی طرح بھی جائز نہیں۔ آپ براہِ مہربانی مفصل طور پر سمجھائیں کہ سند کے قوی ہونے کے باوجود وہ کون سے ایسے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے؟
6۔ بخاری و مسلم کے قطعی طور پر صحیح ہونے پر امت کا اجماع ہے، مگر ان کے متعلق بھی ایسے الفاظ استعمال کرنا، کیا ان کی عظمت پر چوٹ نہیں؟
جواب:
روایت اور درایت کی بحث جس طرح آج کل جماعت اسلامی اور ان کے مخالفین میں موضوعِ سخن بن رہی ہے، اس انداز سے یہ بحث مجموعی طور پر متقدمین کی کتابوں میں میری نظر سے نہیں گزری۔ اگر بحث کا انداز یہی رہا تو جماعت اسلامی نمایاں طور پر فرقہ کی حیثیت اختیار کر لے گی، بلکہ اب تو مولانا مودودی صاحب کی نصوص نے انہیں فرقہ بنا دیا ہے۔
جہاں تک روایت کے فہم میں درایت کی افادیت کا تعلق ہے، اس کا انکار نہ ائمہ حدیث نے کیا ہے، نہ فقہاء حنفیہ رحمہم اللہ نے، بلکہ محدثین شروح حدیث میں روایت اور درایت دونوں سے بحث کرتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت وضو بالنبیذ کو محدثین نے روایت اور درایت دونوں سے رد کیا ہے۔ [1] نکاحِ محرم کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو حضرت میمونہ کے بالمقابل درایتاً رد کیا گیا۔ [2]
لیکن اصولِ روایت کے بالمقابل درایت کو معیاری حیثیت ائمہ سنت نے کبھی نہیں دی۔ مولانا مودودی کے مضمون مسلک اعتدال وغیرہ میں اسے معیاری حیثیت دی گئی ہے۔ میرے ناقص علم میں یہ مسلک تمام ائمہ سنت کے خلاف ہے۔ معلوم نہیں مولانا مودودی صاحب ایسے سمجھدار آدمی نے یہ خاردار راہ کیوں اختیار فرمائی؟
سرسید کے بعد یہ اندازِ تنقید مولانا شبلی رحمہ اللہ نے فقہ راوی کے عنوان سے اختیار فرمایا۔ غالباً سیرت النبی کی پہلی جلد میں اس پر مبسوط بحث ہے۔
[1] سنن أبي داود، رقم الحديث (84) نیز دیکھیں: فتح الباري (1/354) عون المعبود (1/107)
[2] صحيح البخاري، رقم الحديث (1740) صحيح مسلم، رقم الحديث (1410) نیز دیکھیں: فتح الباري (4/52)