کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 360
4۔ براہِ مہربانی یہ بھی سمجھائیں کہ مودودی صاحب نے احادیث اور کتب احادیث پر جس انداز سے بحث کی ہے، کیا ان سے قبل بھی کسی سے ایسا ہوا؟ قاضی عیسیٰ بن ابان کا بھی یہ نظریہ تو نہ تھا؟ مودودی صاحب نے ’’ترجمان القرآن‘‘ (ماہ مئی 1955ء) کے صفحہ (162) پر فرمایا ہے: ’’ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند رایوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے، اور اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔‘‘ آگے چل کر فرماتے ہیں: ’’اور نہ فن حدیث کے نقطہ نظر سے کسی حدیث کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو، مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بھی اسباب ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے کہ جن کی قباحت خود پکا رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے سند کے ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر اس کی صحت میں خواہ مخواہ اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔‘‘ اور آگے چل کر فرماتے ہیں: ’’کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو، اس کو ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے؟ اس طرح کی افراط پسندیاں معاملے کو بگاڑ کر اس تفریط تک نوبت پہنچا دیتی ہیں، جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں۔‘‘ 5۔ کیا یہ مذکورہ الفاظ بھی کسی حد تک قابل قبول ہیں؟ اگر نہیں تو کوئی ثبوت؟ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کسی روایت کی سند کو قوی تصور کر کے بھی قبول نہ کرنا، کوئی معنی رکھتا ہے۔ سند کے قوی ہونے کے بعد تو چھان بین کرنے کا مطلب تو اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم