کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 36
یکسانیت نظر آتی ہے۔ آج مسلم معاشرے میں مقامِ رسالت، حفاظتِ حدیث، احادیث نبویہ کی جمع و تدوین اور محدثین کرام کی جہود و مساعی کے متعلق جن شکوک و شبہات کی ترویج و اشاعت ہو رہی ہے، یہ دراصل مستشرقین یورپ ہی کی آراء و افکار کا چربہ ہے، جس کی ’’تحقیق و دانش‘‘ کے نام پر ترویج کی جا رہی ہے۔ ﴿ يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللّٰه بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّٰه إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ﴾ (التوبہ: 32) برصغیر پاک و ہند میں عبداللہ چکڑالوی پہلا شخص تھا، جو احادیث نبویہ کی تشریعی حیثیت کا مکمل انکاری تھا۔ سرسید احمد خان کا نام بھی اسی گروہ میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے، لیکن وہ حدیث نبوی کا بالکلیہ انکار نہیں کرتا تھا، بلکہ جو حدیث اس کی نیچر اور عقل کے موافق ہوتی، اسے قبول کرتا اور جو حدیث اس کی نیچر کے مخالف ہوتی، اس کا انکار کر دیا کرتا تھا۔ بعد ازیں اس فکر کو پروان چڑھانے میں عبداللہ چکڑالوی کے تلامذہ اور مستفیدین: مستری محمد رمضان، مولوی حشمت علی، مولوی رفیع الدین، مولوی احمد دین امرتسری، حافظ اسلم جیراجپوری، غلام احمد پرویز اور تمنا عمادی کا نام نمایاں ہے۔ فتنہ انکار حدیث اور حضرت سلفی رحمہ اللہ کی جہود و مساعی: ’’حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ مسلک اہل حدیث کے ترجمان، تقریر و خطابت، تحریر و انشا اور درس و تدریس کے شہسوار تھے اور جماعت اہلحدیث کے متعلق اپنے پہلو میں ایک درد مند دل رکھتے تھے۔ پاکستان میں جمعیت اہلحدیث کے وہ پہلے ناظم اعلیٰ اور پھر امیر مرکزیہ کی ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآ ہوئے۔ اہلحدیث کانفرنس میں ان کی عموماً گفتگو حجیت حدیث، مقام حدیث، مسلک اہلحدیث، تاریخ اہلحدیث اور خدمات اہلحدیث کے عنوان پر ہوتی اور اکثر و بیشتر ان کی تحریر کے عنوانات بھی یہی ہوتے۔ وہ جہاں ایک قادر الکلام خطیب تھے، اس کے ساتھ ساتھ تحریر و انشاء میں بھی ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ درس و تدریس اور جماعتی مصروفیتوں کے باعث وہ خواہش کے مطابق چنداں لکھ تو نہ سکے، مگر جس قدر بھی لکھا، اس کا نقش ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔ جس میں ثقاہت، زبان کی لطافت، بیان کی نزاکت اور سنجیدگی کا سب نے اعتراف کیا۔ وہ چھوٹے چھوٹے