کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 359
الاستفتاء محترم مکرم جناب مولانا صاحب زاد مجدکم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ سے اگرچہ کسی قسم کا تعارف نہیں ہے، مگر اپنے بزرگ سے مسئلہ دریافت کرنا، اس امر کا مقتضی نہیں ہے کہ جان پہچان ہو، لہٰذا آپ کی طرف رجوع کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ ضرور میری تشفی فرمائیں گے۔ آج سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جس انداز سے مختلف اطراف سے حملے کیے جا رہے ہیں، آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ منکرین حدیث تو خیر حد سے گزر گئے ہیں، مگر باوجود اہل سنت و اہلحدیث کہلوانے کے کچھ لوگ اس مقدس ذخیرے پر نکتہ چینی کر کے عامۃ المسلمین کے دلوں سے حدیث کی عظمت کو گھٹا رہے ہیں۔ (پچھلے دنوں) ایک حنفی المذہب مولوی صاحب سے حجیتِ حدیث کے موضوع پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے فرمایا: 1۔ مذہب حنفیہ میں جو مقام روایت کا ہے، وہی درایت کا بھی ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ 2۔ انہوں نے اپنی دلیل میں مولانا مودودی صاحب کا مسلکِ اعتدال والا مضمون اور ان کے نظریے کی طرف توجہ دلائی۔ میں خود بھی مودودی صاحب سے تھوڑا بہت متاثر ہوں، مگر مسلک اعتدال میں جو کچھ انہوں نے فرمایا، وہ مجھے پسند نہیں آیا۔ مولانا مودودی صاحب کا حجیت حدیث کے متعلق یہ نظریہ کس حد تک قابل برداشت (قابل قبول) ہے؟ یعنی محدثین (و فقہاء) کے نقطہ نظر سے یہ نظریہ کس حد تک صحیح ہے؟ 3۔ یہ بھی فرمائیں کہ کم از کم اہلحدیث اور حنفی المذہب لوگوں کے نقطہ نظر سے کن اشخاص کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ احادیث، راویانِ احادیث اور مصنفین کتبِ احادیث پر جرح و تنقید کریں؟