کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 357
إضاحة الحق
(پیش لفظ)
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَليٰ رَسُوْلِهٖ خَاتم النبِيين
مولانا مودودی نے اپنے مشن کا آغاز دستوری تحریک اور کانگرس کی مخالفت سے کیا۔ مولانا نے ملک میں اسلامی دستور کے نفاذ کے متعلق کافی لٹریچر شائع کیا۔ عوام چونکہ موجودہ قیادت کی بے اصولی اور لا دینیت سے متنفر تھے، اس لیے اس نوعیت کا لٹریچر ملک میں کافی مقبول ہوا اور بکا۔ اور اس قسم کے کاروبار میں کوئی حرج بھی معلوم نہیں ہوتا، جس سے دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے فوائد ہوں۔ ان کی جماعت کے کئی اخبارات اور رسائل ملک میں اچھی تعداد میں شائع ہوئے اور ملک کی نفسیات سے کاروباری مفاد بھی حاصل کیا گیا۔ ہم خرما وہم ثواب کا یہی مطلب تھا۔
لیکن مولانا مودودی صاحب اور ان کے رفقاء کرام کو اس کاروباری کامیابی سے غلط فہمی ہوئی۔ ان حضرات نے محسوس فرمایا کہ شائد اسلام اور فنون اسلامیہ کی تعبیر میں بھی اِن کے تصورات اسی طرح مقبول ہوں گے، جس طرح ان کے سیاسی نظریات، حالانکہ سیاسی نظریات کی مقبولیت کی بنیاد ان کے نظریات اور ان کے متعلق مولانا کے دلائل کی صحت پر نہیں تھی، بلکہ اربابِ اقتدار کی پے بہ پے غلطیاں اور روز مرہ کی بے عنوانیاں تھیں۔ ورنہ مولانا کے سیاسی افکار بھی بہت حد تک قابلِ بحث ہیں، بلکہ کافی حد تک غلط۔ یہ ایک انسانی کمزوری ہے کہ وہ اس قسم کا جزوی اور وقتی کامیابیوں کو اپنی ہمہ دانی کی دلیل سمجھنے لگتا ہے۔ یہی حال اسلامی جماعت کا ہے۔ وہ اس وقتی اور جزوی قبولیت کو مولانا کی ہمہ دانی کی دلیل سمجھتی اور ان کی غلط صحیح بات کو نص کا مرتبہ دے کر اس کی تائید میں میدان کارزار بپا کر دیتی ہے۔ تنقید کرنے والوں کو بدنام کرتے ہیں، اپنی مجالس میں ان پر پھبتیاں کستے ہیں اور پوری قادیانی تکنیک سے اپنے مخالف کو کم علم، ذلیل اور پامال ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ پر قطعاً سوچنے کی کوشش نہیں کرتے۔