کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 35
مقدمة التحقيق قرآن مجید کے ساتھ احادیث نبویہ کا شریعت اسلامیہ میں کیا مقام ہے، اس بارے میں کسی مسلمان کی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت اور کتاب و حکمت دونوں ہی کو بنیادی شرعی مآخذ اور مصادر قرار دیا ہے، جس پر بے شمار آیات و احادیث دلالت کرتی ہیں۔ قرآن مجید اگرچہ اعجاز و ثبوت میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے، لیکن اطاعت و انقیاد میں قرآن و حدیث دونوں یکساں حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء و رسل کی اطاعت میں تفریق اور دوئی کو قرآن مجید میں قطعی کفر قرار دیا گیا ہے۔ (النساء: 150 تا 152) یہی امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے، جس پر اسلامی تاریخ شاہد عدل ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ میں بڑے بڑے فتن و مفاسد کا ظہور ہوا ہے، خصوصاً احادیث نبویہ کے متعلق تاویل و تشکیک کے ان گنت جال بنے گئے۔ ہر ہویٰ پرست فرقے اور شخص نے اپنے افکار و نظریات کی مخالف احادیث کو مختلف حیلوں اور خود ساختہ اصول و قواعد کی بھینٹ چڑھایا، لیکن کسی دور میں کسی ایسے نظریے کا سراغ نہیں ملتا، جو کلیتاً حدیث و سنت کے انکار و جحود پر مبنی ہو اور اسے مستقل شرعی مصدر و ماخذ تسلیم کرنے سے انکاری ہو، چنانچہ یہی امر فتنہ انکارِ حدیث کی بیخ کنی اور فساد کی ایک زندہ دلیل ہے۔ فتنہ استشراق اور اس کے اثرات: امت مسلمہ کے مذکورہ بالا اجماعی عقیدے کے برعکس گزشتہ صدی سے بعض نام نہاد مفکرین اور دانشور حضرات نے، جو اسلام کی طرف نسبت اور تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں، اسلامی معاشرے میں ایسے افکار و نظریات کی داغ بیل ڈالی، جو مقام رسالت سے انحراف اور احادیث نبویہ کے انکار پر مبنی ہیں۔ انہیں در حقیقت دشمنان اسلام مستشرقین یورپ کی فکری و عملی سرپرستی حاصل ہے، جو ہر دو کے افکار و نظریات کا مطالعہ و مقارنہ کرنے کے بعد نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہے۔ اگر ہم مستشرقین اور ان کے نام نہاد مسلم تلامذہ کے افکار و آراء کا جائزہ لیں، تو ہمیں حیرت انگیز طور پر وہاں مکمل فکری