کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 33
ضروری ہے۔ قوله تعاليٰ: ﴿ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ﴾ اور قوله تعاليٰ: ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ﴾ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ((وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً)) کا عموم اسی حقیقت کا مظہر اتم ہے کہ قرآن و حدیث کی اتباع کی حجت رہتی دنیا تک ہر فرد پر قائم ہے اور ان دونوں کے درمیان تفریق کی جو مزعومہ صورتیں اپنا لی گئی ہیں، وہ سب کی سب باطل ہیں۔ شریعت میں اس تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مستدرک حاکم میں مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ((وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَىَّ الْحَوْضَ)) انتہائی قابل غور اور لائق اعتنا ہے۔ یہ جامع و مانع فرمان بڑی صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے کہ قرآن و حدیث ہر دور میں اور تاقیامِ قیامت ساتھ ساتھ رہیں گے اور ان کے مابین تفریق کی کوئی صورت روا نہیں۔ یہ حدیث جماعت اہلحدیث کی صداقت و حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہی وہ جماعت ہے جس کے اصول و مناہج ہر دور میں عدم تفریق کے اسی مبارک منہج پر قائم رہے۔ ہمارے نزدیک احادیث صحیحہ و ثابتہ کی تشریعی حیثیت مثل قرآن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ((أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ)) اسی عظیم قاعدے کی اساس ہے۔ یہ ہمارا قابل فخر اثاثہ ہے، جبکہ دیگر تمام جماعتوں کے مناہج اس تعلق سے کسی نہ کسی انحراف کا شکار ہیں، چنانچہ کچھ جماعتوں نے تفریق کی یہ صورت اپنائی کہ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کھلم کھلا انکار کر بیٹھے۔ ہمارے نزدیک یہ عمل کفر ہے۔ اہل الرائے حدیث کے کھلم کھلا انکار کی جرأت تو نہ کر سکے، لیکن انہوں نے اپنی رائے کے تمیز و تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے ایسے قواعد وضع کر لیے، جن سے درحقیقت انکارِ حدیث کا دروازہ کھلتا ہے اور یہ قرآن و حدیث میں تفریق کی انتہائی گھناؤنی سازش ہے۔ نور الانوار کی عبارت ’’لو عملنا بكل حديث لانسد باب الرأي‘‘ کتنے خطرناک عزائم کی ترجمانی کر رہی ہے۔ واللّٰه المستعان اہل الرائے کے قواعد: قیاس کا خبر واحد پر مقدم ہونا۔ خبر واحد اگر اصول و قواعد کے خلاف ہو تو اس کا مردود ہونا۔ خبر واحد اگر عقل کے خلاف ہو اور اسے روایت کرنے والا صحابی غیر فقیہ ہو، تو