کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 32
حقیقی داعی اس شخص کو قرار دیا ہے، جو تحریراً یا تقریراً مبتدعین کی بدعات و خرافات کے رد کے لیے مناظرہ کے منہج پر عملاً قائم ہو۔ بحمداللہ مؤلف رحمہ اللہ، سلف صالحین کے اس منہج کا پوری طرح درک رکھتے تھے اور طریقِ سلف صالحین ہی کی روشنی میں رد و قدح کے مبارک عمل پر قائم تھے، چنانچہ تعاقب کا یہ سلسلہ ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہوتا اور استدلال و استنباط پر قائم ہوتا۔ کتابِ ہذا کا مطالعہ کرنے والا یقیناً اس حقیقت کا معترف ہو گا کہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے حدیث پر وارد ہونے والے شبہات اور مطاعن کے ازالے کے لیے کیسا نفیس انداز اختیار کیا ہے۔ آپ کا تعاقب دلائل کی قوت سے مالامال ہوتا ہے، لیکن جن شخصیات کی طرف سے وہ اوہام و شبہات سامنے آتے ہیں، ان کے ذکر میں اکرام و احترام کا پہلو کس قدر غالب ہوتا ہے۔ کتابِ ہذا میں کچھ اہل قلم مثلاً اصلاحی صاحب، مودودی صاحب اور تمنا عمادی صاحب کے بعض مقالات کا علمی رد موجود ہے اور وہ تمام کا تمام مذکور منہج کی روشنی میں ہے۔ یعنی دلائل ساطعہ اور براہین قاطعہ کی بھرمار، لیکن لہجہ انتہائی پروقار اور مٹھاس سے بھرپور۔ گویا ﴿جَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ اور ﴿ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ کی عملی تصویر ہے اور یہی وہ منہج مستقیم ہے جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا انتہائی لائق توجہ اور قابلِ اتباع پہلو ہے۔ ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰه لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾ ﴿إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ قارئین کرام! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو امانتیں اپنی امت کو سونپ کر اس دنیا سے تشریف لے گئے اور انہیں دو امانتوں کے ساتھ حقیقی و مضبوط تعلق و تمسک کو ثبات و استقامت کی علامت قرار دیا: ((تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا كِتَابَ اللّٰه ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)) پوری زندگی انہی دو چیزوں کا پرچار کرتے رہے: ((أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللّٰه ، وَخَيْر الْهدى هدى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)) اور فرمایا: ((أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ)) قرآن و حدیث کے ساتھ تمسک کی یہ وصیت و تلقین اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص نہ تھی، بلکہ قیامت کی دیواروں تک آنے والے آخری فرد تک کے لیے ان دو چیزوں کا قبول کرنا