کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 29
اتمامِ حجت کے لیے بھیجا ہو، یہ کیا بدبختی ہے کہ اس کے بارے میں ’’امت‘‘ کے کچھ افراد یہ فیصلہ دیں کہ وہ قابل اعتماد نہیں اور ان کی بات حجت نہیں، یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دور میں تو لائق اعتماد تھے، مگر موجودہ ترقی یافتہ دور میں لائقِ اعتماد اور قابلِ التفات نہیں۔ روشن خیالی کے معیار پر پورے نہیں اترتے اور ترقی کی راہ میں یہ رکاوٹ ہیں۔
بلکہ دانشوری کے خمار اور روشن خیالی کے غرور میں کہا جا رہا ہے کہ قرآن نے شراب کو کہیں حرام قرار نہیں دیا۔ ریشم اور سونا مردوں کے لیے پہننا قرآن نے حرام نہیں ٹھہرایا۔ اس کی ممانعت تب ہے جب تکبراً پہنا جائے۔ زنا بالرضا قابل حد نہیں ہے۔ حدود کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، سود کھانا حرام ہے، سود دینا حرام نہیں۔ ناچ گانا اور ڈھول ڈھمکا بھی حرام نہیں۔ یہ تو آرٹ اور ثقافت ہے۔ یہ صرف اس وقت حرام ہے، جب اس کے ساتھ شراب کی محفل سجے اور بدکاری کا ارتکاب ہو۔ اسلام میں پردہ نہیں، نہ کوئی اس کے بارے مستقل حکم ہے، یہ تو بس ایک خاص زمانے کا کلچر تھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نوعیت کی ساری کارروائی قرآن مجید کی آڑ میں سرانجام دی جاتی ہے اور اسے قرآنی تعلیمات باور کرایا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و ارشادات اور معمولات کو نظرانداز کر کے اپنی خواہشات و ہوسات کی تسکین کی جاتی ہے۔ قرآن پاک کو اپنی مرضی اور من مانی کے معنی پہنانے بلکہ اپنی بد عملی اور بد اطواری کے لیے جواز پیدا کرنے کے لیے احادیث مبارکہ کو عجمی سازش باور کرانے کی سعی نامشکور کی جاتی ہے۔ ماضی قریب میں اس فکر کے سرغنے اسلم جیراجپوری، تمنا عمادی اور غلام احمد پرویز وغیرہ تھے۔
یہ حضرات اور ان کے مستشرق مرشدوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ ذخیرہ احادیث پر تنقید کے ساتھ ساتھ بالخصوص حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، امام زہری، امام طبری اور صحیح بخاری کو ہدف تنقید بنایا جائے، کیونکہ کثرتِ روایات میں سب سے زیادہ بلند مقام حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہے۔ احادیث کے مدون اول امام زہری ہیں اور تاریخ و تفسیر کا سب سے بڑا مرجع امام ابن جریر ہیں اور حدیث کی سب سے معتبر کتاب امام بخاری کی صحیح بخاری ہے۔ اگر ان کی حیثیت کو مجروح اور ناقابل اعتبار ثابت کر دیا جائے، تو اسلام کی فلک بوس عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔ یہ بالکل اسی نوعیت کی کوشش ہے جو قرون ماضیہ میں بعض زندیقوں اور بدعی فرقوں نے صحابہ کرام کے بارے میں