کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 28
ایک اور مقام پر چند انبیائے کرام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰه حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ﴾ (النساء: 165)
’’ہم نے سب رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے اس لیے بھیجے کہ رسولوں کے آ جانے کے بعد لوگوں کا کوئی عذر اللہ کے سامنے باقی نہ رہے۔‘‘
ان پر اتمام حجت ہو جائے اور پھر یہ کوئی عذر نہ کر سکیں کہ ہمیں کسی نے خبردار نہیں کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تقریباً چھ سو سال کا عرصہ گزر چکا، یہود و نصاریٰ نے دین میں تحریف کر دی اور شرائعِ اسلام کو بدل ڈالا۔ ان کی ان نالائقیوں پر انہیں خبردار کیا اور فرمایا:
﴿ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللّٰه عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ (المائدة: 19)
’’اے اہل کتاب! رسول ایسے وقت میں تمہارے پاس آیا ہے اور دین کی واضح باتیں بتلاتا ہے، جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا، بلاشبہ وہ بشارت دینے اور ڈرانے والا آ گیا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
فرعون کے پاس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو بھیجا، اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کی تو اس جرم کی پاداش میں اسے مع اس کے حواریوں کے غرق کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ فَعَصَىٰ فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا﴾ (المزمل: 16)
’’فرعون نے رسول کی نافرمانی کی، تو ہم نے اسے بڑے وبال میں دھر لیا۔‘‘
صحیفہ ہدایت تورات تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی بربادی کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائی، اس لیے اگر رسول کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کا انکار کر دیا جائے، تو یہ درحقیقت اس حجت ہی کا انکار ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسول کی صورت میں اپنے بندوں کے لیے مقرر کی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے