کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 27
تقدیم
الحمدلله رب العالمين، والصلاة والسلام علي سيد الأنبياء والمرسلين، وعليٰ آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إليٰ يوم الدين، أما بعد:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور اس سلسلہ نبوت کا آخری تاجدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا یہ تقرر کس لیے تھا؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰه ﴾ (النساء: 64)
’’ہر رسول صرف اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
یہ اطاعت ایمان و عقیدہ میں، عبادات میں اور ان تمام معاملات میں مطلوب ہے جس کی وضاحت ’’رسول‘‘ نے کی ہے، بلکہ دین کی تمام تر بنیاد ’’رسول‘‘ پر ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کی تمام تر صفات پر ایمان، جنت، دوزخ، قیامت کا اقرار اس بات پر ہے کہ ان کی خبر اس ’’رسول‘‘ نے دی ہے، جس کی زبان اقدس سے کبھی غلط بات نہیں نکلی، جس کا اعتراف آپ کے دشمنوں کو بھی تھا۔ ’’رسول‘‘ نے بتلایا کہ اللہ ہے اور یہ اللہ کا پیغام ہے۔ اگر ’’رسول‘‘ کی اطاعت نہیں تو اللہ اور اس کے پیغام کو تسلیم کر لینے کی صحیح دلیل کون سی ہے؟
یہ کس قدر ستم ظریفی ہو گی کہ رسول کے بتلانے پر اللہ اور اس کے پیغام کو تو تسلیم کیا جائے، مگر رسول یا اس کے پیغام کا انکار کر دیا جائے۔ ’’رسول‘‘ تو ہے ہی اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی ’’رسول‘‘ تسلیم کر کے اس کی اطاعت سے انکار کرتا ہے، تو وہ دراصل رسالت کے مقصد حقیقی ہی کا انکار کرتا ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت اتمام حجت کے لیے ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ (الاسراء: 15)
’’اور ہم اس وقت تک کسی کو عذاب کرنے والے نہیں، جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔‘‘