کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 261
يقع التصنيف فيه علي اعتقاد مصنف الكتاب، و أكثر التصانيف في أصول الفقه لأهل الاعتزال المخالفين لنا في الأصول، ولأهل الحديث المخالفين لنا في الفروع، ولا اعتماد علي تصانيفهم‘‘ الخ (كشف الظنون عن الكتب والفنون: 1/89، بحث أصول الفقه، أبجد العلوم: 2/325)
فرماتے ہیں: ’’اصول فقہ علم کلام کی فرع ہے اور ہر تصنیف اپنے مصنف کے اعتقاد کی مظہر ہوتی ہے۔ اصول فقہ میں زیادہ تر تصانیف معتزلہ اور اہل حدیث کی ہیں۔ اول الذکر اصول میں ہمارے مخالف ہیں اور دوسرے فروع میں، ان کی تصانیف پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ [1]
اس کے بعد حنفی علماءِ اصول کی تصانیف کا ذکر فرمایا کہ بعض علماء دقائقِ اصول سے آشنا نہ تھے اور نہ ہی معقولات کو صحیح طور پر سمجھتے تھے، اس لیے ہمارے اصول کی کتابوں میں آمیزش ہو گئی۔ اور علامہ علاؤ الدین کا یہ ارشاد صحیح معلوم ہوتا ہے کہ اصولِ فقہ اعتزال کی آمیزش سے محفوظ نہیں۔ فقط راوی اور خبر واحد کی ظنیت کا مسئلہ اعتزال کی راہ سے علماءِ اصول میں آ گیا ہو گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ معتزلہ کی ان نوازشوں سے بے خبر نہ تھے، جو ان لوگوں نے اسلام اور ائمہ اسلام پر کی تھیں۔ مامون، معتصم اور واثق باللہ کی عنایتیں ابھی حدیث محفل تھیں۔ خبر واحد کے متعلق ان کے نظریات سے ائمہ اسلام نا آشنا نہ تھے اور ائمہ حدیث اصولِ فقہ میں بعض دوسرے فقہاء کی طرح خامکار بھی نہ تھے، اس لیے انہوں نے ’’الجامع الصحيح‘‘ کے آخر میں ’’كتاب أخبار الآحاد‘‘ کا اضافہ فرمایا اور پہلے ذیلی باب میں حضرات معتزلہ کی لغزش کو بے نقاب فرمایا کہ خبر واحد اگر مخبر صادق کی طرف سے ہو تو وہ جانبر اور حجت ہو گی۔ اس میں قرآن مجید سے بھی استدلال فرمایا:
﴿ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ ﴾ (التوبۃ: 122)
[1] نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ’’أبجد العلوم‘‘ میں اس قول کو نقل کرنے کے بعد اس پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اہل حدیث اور ان کی تصانیف پر عدم اعتماد ایسی بات ہے، جس میں انتہائی تعصب کی آمیزش ہے۔ یہ تقلیدی بطن سے نمودار ہوئی ہے، کیونکہ اگر اہل حدیث کی کتب پر اعتماد نہیں کیا جائے گا، جو دین میں ایک نمونہ اور قدوہ اور اہل فقہ اور مقلدین سے کئی گنا زیادہ کتاب و سنت کی نصوص کا علم اور معرفت رکھنے والے ہیں، تو کون سی جماعت اعتماد و اعتناء کے لائق ہے؟ اس حنفی متعصب کی یہ بات انتہائی سنگین غلطی ہے، جو صرف اس شخص سے صادر ہو سکتی ہے جس کو علم و انصاف چھو کر بھی نہ گزرا ہو۔ اس قول پر کوئی علمی دلیل نہیں۔‘‘