کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 237
[1]ہے۔ احادیث کے جو دفاتر اس وقت موجود ہیں، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے خلاف ہیں۔ امام رحمہ اللہ نے اس آنے والے فتنہ کا سدباب پہلے ہی کر دیا اور کتابتِ علم اور مناولہ [2]1 کے ابواب منعقد فرمائے۔
[1] (2) اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو بھی کتابتِ حدیث کی اجازت دی تھی اور یہ حدیث ممانعت والی حدیث سے بعد کی ہے، کیونکہ وہ اپنی وفات تک احادیث لکھتے رہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے وفات پائی تو ان کا لکھا ہوا ’’صادقہ‘‘ نامی صحیفہ ان کے پاس موجود تھا۔ اگر کتابتِ حدیث سے ممانعت والی حدیث آخر کی ہوتی تو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے اپنی لکھی ہوئی احادیث کو مٹا دیتے، لہٰذا جب انہوں نے احادیث کو مٹایا نہیں، بلکہ باقی رکھا ہے، تو ثابت ہوا کہ کتابتِ حدیث کی اجازت والی احادیث ممانعت والی احادیث سے متاخر ہیں اور بحمداللہ یہ بات اچھی طرح واضح ہے۔ (3) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے مرض وفات میں اپنے فرامین لکھوانے کے لیے قلم اور دوات طلب کی تھی، یہ صرف آپ کی اجازت اور حکم کی وجہ سے آپ کا کلام لکھنے کے لیے تھا۔ (4) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو بڑا عظیم الشان صحیفہ لکھ کر دیا تھا، جس میں دیات اور زکاۃ وغیرہ کے احکام مندرج تھے۔ علاوہ ازیں نبی اقدس علیہ السلام کے صدقات میں دیگر صحائف بھی معروف ہیں، جیسے صحیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور صحیفہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھی ایک صحیفہ تھا، جس میں دیات وغیرہا کے احکام لکھے ہوئے تھے۔ ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداءِ اسلام میں قرآن کے علاوہ کسی چیز کو لکھنے سے صرف اس لیے منع کیا تھا کہ مبادا قرآن مجید کا کسی دوسری چیز سے اختلاط و التباس پیدا ہو جائے، لیکن جب قرآن مجید کا اچھی طرح علم اور امتیاز پیدا ہو گیا، وہ حفظ و ضبط کی گرفت میں آ گیا اور اختلاط کا خطرہ نہ رہا، تو کتابتِ حدیث کی اجازت دے دی گئی۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ کتابت کی صرف ایک مخصوص کیفیت سے منع کیا گیا تھا کہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کو ایک ہی صحیفے میں اکٹھا تحریر نہ کیا جائے، تاکہ التباس پیدا نہ ہو، پھر بھی سلف میں کچھ لوگ کتابت کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے اور بعض لوگ کتابت کی رخصت دیتے تھے، لیکن حفظ کرنے کے بعد اس کو مٹا دیتے۔ لیکن اب کتابت کے جواز اور اسے باقی رکھنے پر اتفاق ہو چکا ہے اور اگر کتابت نہ ہوتی، تو آج ہمارے پاس سنت کا بہت تھوڑا حصہ موجود ہوتا۔‘‘ (حاشية ابن القيم عليٰ سنن أبي داود: 10/55، مع العون) علاوہ ازیں کئی دیگر علماء نے بھی کتابتِ حدیث کے جواز اور استحباب پر اجماع نقل کیا ہے۔ دیکھیں: مقدمة ابن الصلاح (ص: 103) شرح صحيح مسلم للنووي (1/245) جامع الأصول لابن الأثير (8/33) سير أعلام النبلاء (3/80) فتح الباري (1/204) عون المعبود (5/348) كتاب العلم لأبي خيثمة (ص: 115) تعليق العلامة الألباني رحمه اللّٰه ۔ [2] 1 حدیث نبوی کو نقل کرنے اور سیکھنے کے آٹھ طریقے ہیں، جن میں ایک طریقہ ’’مناولہ‘‘ ہے۔ اس میں استاد اپنے شاگرد کو کتاب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تم مجھ سے یہ احادیث بیان اور نقل کر سکتے ہو۔ دیکھیں: الكفاية (1/326) الإلماع (ص:79) مقدمة ابن الصلاح (ص: 94) تدريب الراوي (2/44) فتح المغيث (2/112)