کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 236
منشا یہ ہے کہ انسان بچپن سے بڑھاپے تک علم میں مشغول رہے، نیز فرمایا:
’’قد تعلّم أصحاب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم في كبر سنهم‘‘
’’صحابہ نے بڑی عمر میں علم سیکھا۔‘‘
علم کی ضرورت، علم کی خوبی اور اس کا شوق ان ارشادات سے ظاہر ہے۔ یہی ایسی نعمت ہے، جس میں ریس اور غبطه [1] کی اجازت فرمائی گئی ہے۔
کتابت:
بعض کم فہم حضرات نے ایک مسئلہ اس انداز سے پھیلایا، جس کا مقصد علم دشمنی کے سوا کچھ نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کسی وقت منع فرمایا تھا کہ وہ قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو اکٹھا نہ لکھا کریں۔ (مجمع الزوائد: 1/150) [2]
روایت بالمعنی کے طور پر بعض الفاظ سے کتابتِ حدیث کے متعلق نہی ظاہر ہوتی تھی، لیکن اہل حدیث نے اس نہی کو وقتی سمجھا اور بالآخر اس پر اجماع ہو گیا کہ جس طرح قرآن مجید لکھنا درست ہے، حدیث لکھنا بھی درست ہے۔[3]
آج صدیوں کے بعد منکرین حدیث نے ان روایات کو اس طرح ذکر فرمایا کہ حدیث لکھنا ممنوع
[1] کسی شخص پر کوئی نعمت دیکھ کر یہ خواہش کرنا کہ مجھے بھی اس جیسی نعمت حاصل ہو جائے اور دوسرے شخص پر بھی یہ نعمت باقی رہے۔ (النھایۃ لابن الأثیر: 3/633)
[2] امام ہیثمی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اس میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہے۔ (مجمع الزوائد: 1/151، رقم الحدیث: 672) نیز دیکھیں: العلل لأحمد (2/135) تاریخ ابن معین (1/151)، برقم (527)، تہذیب التہذیب (6/161) مزید برآں جن احادیث و آثار میں کتابتِ حدیث کی ممانعت کا ذکر ہے، ان کا معنی حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور دیگر محدثین نے یہی بیان کیا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث کو اکٹھا نہ لکھا جائے، کیونکہ ابتداءِ وحی میں التباس و اختلاط کا خدشہ تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: تقیید العلم (ص: 49) مقدمۃ ابن الصلاح (ص: 103) شرح صحیح مسلم للنووی (1/245)
[3] حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتابتِ حدیث کی اجازت اور ممانعت دونوں کے بارے میں صحیح احادیث مروی ہیں، لیکن اجازت والی احادیث متاخر ہیں، لہٰذا یہ ممانعت والی احادیث کی ناسخ متصور ہوں گی، کیونکہ:
(1) نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ابو شاہ رضی اللہ عنہ کے مطالبے پر اپنا خطبہ لکھنے کی اجازت دی تھی۔ ---