کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 219
’’تم ایسی قوموں سے ملو گے، جو تم سے قرآن کے متشابہات میں بحث کریں گے، ان کی سنت سے گرفت کرو، کیونکہ اصحاب سنت کتاب اللہ کو بہتر جانتے ہیں۔‘‘
جو شخص قرآن عزیز کے شبہات کا حل ہی حدیث اور سنت سے سمجھتا ہے، اس کی طرف انکار حدیث کی نسبت سینہ زوری ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ احادیث میں تثبت چاہتے تھے۔ اسے بعض کم سواد حضرات نے انکار سمجھ کر خوش ہونا شروع کر دیا۔ وبينهما مفاوز تنقطع فيها الأعناق! [1]
وكم من عائب قولا صحيحا
و آفته من الفهم السقيم [2]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس تشدد سے، جو تثبتِ حدیث کے سلسلہ میں فرمایا، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے بعد رجوع فرمایا۔ [3] کوئی ایک بھی روایت ایسی ثابت نہیں کی جا سکتی ہے، جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجیت حدیث سے انکار فرمایا ہو۔
’’حسبنا كتاب اللّٰه ‘‘[4]فرمانے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احادیث کو حجت مانا، ان سے استدلال فرمایا، فصلِ خصومات کے وقت ان پر اعتماد فرمایا۔ طاعون زدہ زمین میں جانے کے متعلق جب مہاجرین و انصار کے مشوروں سے بھی اطمینان نہ ہوا، تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے حدیث بیان کرنے سے طبیعت صاف ہو گئی۔ [5] اس قسم کے بیسیوں واقعات دفاترِ سنت میں موجود ہیں، طالب حق ان کی طرف رجوع کرے۔
فن حدیث:
حدیث سے مراد دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور افعال ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
[1] ان دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جسے طے کرتے کرتے سواریوں کی گردنیں کٹ جاتی ہیں۔
[2] اور کتنے ہی درست بات میں عیب جوئی کرنے والے ہوتے ہیں، ان کی اصل مصیبت کمزور عقل ہے!
[3] الإحكام لابن حزم (2/258) نیز دیکھیں: صحيح مسلم: كتاب الآداب، باب الاستئذان، رقم الحديث (2154)
[4] صحيح البخاري: كتاب المرضيٰ، باب قول المريض، قوموا عني، رقم الحديث (5345)، صحيح مسلم: كتاب الوصية، باب ترك الوصية لمن ليس له شيء يوصي فيه، رقم الحديث (1637)
[5] صحيح البخاري، كتاب الطلب، باب ما يذكر في الطاعون، رقم الحديث (5397) صحيح مسلم: كتاب السلام، باب الطاعون والطيرة والكهانة و نحوها، رقم الحديث (2219)