کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 217
[1]اس مفہوم کے جس قدر آثار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہیں، سب روایتاً اور درایتاً غلط اور باطل ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے قریباً پانصد احادیث مروی ہیں۔[2] 1 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا شمار مکثرین صحابہ میں ہے۔ چند صحابہ ہیں جن کی روایات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ ہیں۔[3] 2 (الإحكام لابن حزم:140)[4]3
[1] پڑتا، کیونکہ امام شعبی رحمہ اللہ اکیس (21) ہجری یا خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے چھٹے سال پیدا ہوئے اور ایک سو چار (104ھ) ہجری کو فوت ہوئے۔ (تاريخ خليفه بن خياط: 149، طبقات خليفه: 157، سير أعلام النبلاء: 4/295، تهذيب الكمال: 14/28)
پہلے قول کے پیش نظر قرظہ بن کعب کی وفات کے وقت امام شعبی رحمہ اللہ کی عمر کم و بیش دس سال ظاہر ہوتی ہے اور دوسرا قول تسلیم کرنے کی صورت میں پچیس سال سے زیادہ ثابت ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں ائمہ محدثین رحمہم اللہ نے قرظہ بن کعب رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں امام شعبی کا تذکرہ اور روایت کی صراحت کی ہے:
امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’روي عنه عامر بن سعد والشعبي‘‘ (الجرح والتعديل: 7/144)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حديثه عند الشعبي‘‘ (الثقات: 3/348)
اسی طرح امام ابو الحجاج المزی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے بھی ذکر کیا ہے۔ اس اثر کی سند کو امام حاکم، حافظ ابن حجر (فتح الباري: 13/244) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
لیکن اس اثر سے یہ مراد لینا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدیث نبوی کو شرعی حجت تسلیم نہیں کرتے تھے، قطعاً باطل ہے۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’دشمنانِ سنت اور جہلا نے اس اثر کو حدیث سے بیزاری کی دلیل بنا لیا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے ایسے آثار نقل کیے ہیں، جو دلالت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدیث نبوی کو شرعی حجت اور دینی ماخذ تسلیم کرتے تھے۔ (جامع بيان العلم: 2/1004)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہ اسباب کی بنا پر لوگوں کو کثرتِ تحدیث سے منع کرتے تھے:
1) اس خوف سے کہ لوگ قرآن مجید کی تعلیم اور اس کے معانی و تفسیر میں غور کرنے سے احتراز کریں گے۔
2) کہیں لوگ ایسی احادیث بیان کرنا شروع کر دیں، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ فرمائی ہوں، چونکہ لوگ لکھتے نہیں تھے، اس لیے نسیان کا خطرہ تھا۔ (فتح الباري: 13/244)
[2] 1 حافظ ابن ملقن اور علامہ صفی الدین خزرجی رحمہم اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث کی تعداد پانچ سو انتالیس (539) ذکر کی ہے۔
خلاصة تذهيب تهذيب الكمال (ص: 282) الإعلام بفوائد عمدة الأحكام (1/142) نیز دیکھیں: تلقيح فهوم أهل الأثر لابن الجوزي (ص: 264)
[3] 2 یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بکثرت احادیث مروی ہیں۔ اصطلاحاً ’’مکثرین صحابہ‘‘ ان صحابہ کرام کو کہا جاتا ہے، جن کی مرویات کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے اور وہ سات صحابہ کرام ہیں:
[4] 3 الإحكام لابن حزم (2/255)