کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 214
(3) ذہبی نے اسے بحوالہ حاکم نقل کیا ہے۔ ’’حاکم‘‘ سے مراد علی الاطلاق مستدرک ہوتی ہے، مستدرک کے مطبوعہ نسخہ میں یہ اثر نہیں ہے۔ (4) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جس خطرہ کا اظہار فرمایا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ وہ غلط نسبت سے بچنا چاہتے ہیں۔ یہ ’’تثبت في الحديث‘‘ ہے، اسے انکار تصور کرنا تصور کی غلطی ہے۔ [1] (5) اس اثر سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تدوین و تصنیفِ حدیث کا رواج تھا۔ منکرین حدیث کے لیے اس اثر سے استدلال ’’فرّ من المطر، وقرّ تحت الميزاب‘‘[2]کا مصداق ہو جائے گا۔ (6) اور ہمیں یہ اثر قطعی مضر نہیں، کیونکہ ہم آج بھی غلط اور جھوٹی حدیثوں کو جلا دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ جب قرآن کے مشتبہ نسخے جلائے جا سکتے ہیں، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے زیادہ کیا کیا؟ اس کی اسناد کے متعلق کسی دوسری فرصت میں ان شاء اللہ عرض کیا جائے گا۔ [3] (7) کسی غلط یا مشتبہ چیز کے جلانے سے یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ اصل حقیقت اور اس کا صحیح حصہ بھی قابل ترک ہے؟ (8) اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حجیت حدیث کے منکر تھے، تو پھر ایک سو بیالیس احادیث انہوں نے کیوں روایت فرمائیں؟
[1] جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہ مجموعہ جلا دیا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ آپ نے اسے کیوں جلا دیا ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں ڈرتا ہوں کہ مجھے موت آ جائے اور اس صحیفے میں ایسے شخص سے احادیث مروی ہوں، جسے میں تو امانت دار سمجھتا ہوں، لیکن حدیث ایسی نہ ہو، جیسی اس شخص نے مجھے بیان کی ہے، تو کہیں میں نے اس کو بعینہ ویسا ہی نقل کر دیا ہو، اور اگر کوئی حدیث باقی رہ گئی، جو مجھے نہ مل سکی تو لوگ کہیں گے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہوتا، تو ابوبکر پر مخفی نہ رہتا۔ میں نے تم کو احادیث بیان کر دی ہیں اور شاید میں اس کا حرف بہ حرف تتبع نہیں کر سکا۔ (تذكرة الحفاظ (1/5، كنز العمال ، برقم: 29460) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منقول الفاظ سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ان احادیث کی صحت کے بارے مکمل اطمینان نہیں تھا، نہ کہ وہ حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔ [2] بارش سے بھاگا اور نالے کے نیچے ٹھہر گیا۔ [3] امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس اثر کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اس سند سے یہ اثر سخت غریب ہے اور (اس کا راوی) علی بن صالح کا کوئی پتا نہیں (مجہول ہے)۔ (كنزل العمال، برقم: 29460) علی بن صالح کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ”مستور“ قرار دیا ہے۔ (تقريب التهذيب: 302)