کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 211
حدیث علمائے اُمت کی نظر میں قرآن عزیز کے بعد جو فن امت کی نظر میں سب سے زیادہ عزیز تھا، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہی ہو سکتے ہیں۔ صحابہ میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے تھے: اول: وہ لوگ جن کا قیام مسجد کے سامنے صفہ میں تھا۔ یہ لوگ عموماً دنیوی کاروبار اور بقدر ضرورت مشقت کرتے تھے اور زیادہ وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف کر کے علم سیکھتے اور حدیث و قرآن حفظ کرتے تھے۔ دوم: وہ لوگ جو دنیوی کاروبار بھی کرتے اور علمی خدمت میں بھی مشغول رہتے۔ یہ لوگ فرصت کے اوقات مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں گزارتے تھے۔ کبھی اشتراک سے باریاں مقرر کرتے۔ ایک ساتھی اپنی باری سے کاروبار کرتا، دوسرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا۔ جو کچھ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھتا، دوسرے ساتھی کو اس سے آگاہ کر دیتا۔ (بخاري ملتقطاً) [1] غرض حفظِ حدیث ایک مقدس مشغلہ تھا، جس کے لیے ہر دل میں آرزو تھی، اور ایسا ہونا بالکل قدرتی ہے، کیونکہ شریعت کا روایتاً تمام تر انحصار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر ہے۔ [2]
[1] صحيح البخاري، كتاب العلم، باب التناوب في العلم، رقم الحديث (89) [2] ’’اللہ تعالیٰ ایسے بندے کے چہرے کو تروتازہ رکھے، جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی، پھر اس کو حفظ کیا، یہاں تک کہ اس کو آگے پہنچا دیا۔‘‘ (حدیث نمبر: 3660) اسی بنا پر صحابہ کرام اور تابعین عظام اپنے تلامذہ کو حفظ حدیث کی تعلیم و ترغیب دیا کرتے تھے، جس کی تفصیل کتب رجال میں بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ امام اسماعیل بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہمیں حفظ کرنی چاہیے، کیونکہ وہ بھی قرآن کے مرتبے میں ہے۔‘‘ (ذم الكلام و أهله: 2/69۔ السنة للمروزي: 32) مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: الجامع لأخلاق الراوي و آداب السامع للخطيب البغدادي (1/231)