کتاب: مولانا وحید الدین خان افکار ونظریات - صفحہ 6
اِس ترکیب میں ’پسند، کا لفظ بھی قابل غور ہے۔ خان صاحب ایک اور جگہ علماء کی عیب جوئی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے علماء مغربی افکار کو سرے سے جانتے ہی نہیں…علماء اگر مغربی فکر کو گہرائی کے ساتھ سمجھتے تو اُس کو اپنے لیے عین مفید سمجھ کر اُس کااستقبال کرتے۔ مگر سطحی معلومات کی بنا پر وہ اِس کے مخالف بن گئے اور اِس کا مذاق اڑانے لگے۔‘‘(ایضاً: ص ۴۱۔۴۲)
ایک اور جگہ اہل علم پر الزام دھرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’علماء کی دور جدید سے بے خبری کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایسا لٹریچر تیار نہ کر سکے جو جدید ذہن کو مطمئن کرنے والا ہو۔ شاہ ولی اللہ سے لے کر سید قطب تک،میرے علم کے مطابق،مسلم علماء کوئی ایک کتاب بھی ایسی تیار نہ کر سکے جو آج کے مطلوبہ معیار پر پوری اترتی ہو۔‘‘(ایضاً: ص۴۵)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’ سو سال سے بھی زیادہ مدت سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ہمیں دور جدید کے علماء کی ضرورت ہے، یعنی ایسے علماء جو علوم دینیہ کی تحصیل کے علاوہ وقت کے علوم کی بھی تعلیم حاصل کریں۔ اِس طرح ایسے علماء تیار ہوں جو قدیم و جدید دونوں سے واقف ہوں تا کہ وہ عصر حاضر کے مطابق، اسلام کی خدمت انجام دے سکیں…ایسے لوگوں کی فہرست ہزاروں میں شمار کی جا سکتی ہے جو دونوں قسم کی تعلیم سے بہرہ ور ہوئے، مگر وہ ملت کی مطلوب ضرورت پورا نہ کر سکے۔ مثال کے طور پر چند نام یہاں لکھے جاتے ہیں۔ مولانا حمید الدین فراہی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، پروفیسر مشیر الحق، ڈاکٹر عبد الحلیم عویس، ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی، مولانا محمد تقی عثمانی، پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی، پروفیسر محمد اجتبا ندوی، پروفیسر محسن عثمانی، پروفیسر ضیاء الحسن ندوی، ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی، ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ڈاکٹر سعود عالم قاسمی وغیرہ…میں نے ذاتی طور پر اِس قسم کے علماء کی تحریریں پڑھی ہیں، مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُن سب کی تحریریں قدیم روایتی مسائل کی جدید تکرار کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:مارچ ۲۰۰۷ء، ص ۴۔۵)