کتاب: مولانا وحید الدین خان افکار ونظریات - صفحہ 5
تھا، مگر اُس میں دو چیز مکمل طور پر حذف تھی اور اور وہ ہے دعوت اور اَمن کا تصور۔ اِس کے بعد جب مغربی طاقتوں نے مسلم ایمپائر کو توڑ دیا تو اِس کے خلاف رد عمل کی بنا پر یہ ذہن اور زیادہ پختہ ہو گیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری، منفی سوچ اور منفی سرگرمیوں کی نذر ہو گئی۔ اِس پوری صدی میں نہ دعوت کا پیغام لوگوں کے سامنے آیا اور نہ اَمن کا پیغام، جب کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ نے استثنائی طور پر دعوت اور اَمن کی اہمیت کھولی۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء، ص۲۳۔۲۴) اب اُن کے اِس تصورِدعوت اور اَمن کی بھی ذرا سی جھلک ملاحظہ فرمائیں جو اُن کے بقول مسلم دنیا کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں نہیں ملتا ۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ء میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو توڑنے کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے کے بعد امریکا غضب ناک ہو گیا۔ اُس نے عراق اور افغانستان کے خلاف براہ راست طور پر اور پوری دنیا کے خلاف بالواسطہ طور پر ایک انتقامی جنگ چھیڑ دی۔ اِس جنگ میں نام نہاد جہاد کے اَکابر رہنما یا تو مارے گئے یا وہ خاموش ہو گئے۔ امریکا کا یہ آپریشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی آپریشن تھا۔ اِس نے اُن تمام طاقتوں کو زیر کر دیا جو اَمن اور دعوت کے مشن کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:جولائی ۲۰۱۰ء، ص۲۶) 4۔تنقیص: خان صاحب نے اپنے ماسوا تقریباً ہر دوسرے بڑے عالم دین پر نقد کی ہے اور ان کی نقد تعمیری(Constructive Criticism) نہیں ہے بلکہ تنقیص(reproach and denunciation)کی ایک صورت ہوتی ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا کہ میں پیدائشی طور پر ایک تنقید پسند آدمی ہوں۔‘‘(وحید الدین خان،علماء اور دورجدید،ماہنامہ الرسالہ،نیو دہلی،۱۹۹۲ء،ص۴۴) ایک ہے کہ ضرورت کے تحت تنقید کرنا اور یہ ایک ناگزیر اَمر اور معاشرتی ضرورت ہے۔ جبکہ ’تنقید پسند ہونا، ایک دوسری بات ہے جو ہمارے خیال میں بہرطور درست نہیں ہے ۔