کتاب: مولانا وحید الدین خان افکار ونظریات - صفحہ 36
حضرت عیسیٰ ابن ریم علیہ السلام کا فرشتوں کے پَروں پر ہاتھ رکھے دمشق کے مشرق میں سفید منارہ پر اترنا،اِس حال میں کہ اُن کے نزول کی شان اور اُن کے کپڑوں کا رنگ تک بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دیا ہو ، تو اِس کے بعد بھی کیا اُن کے مسیح ابن مریم علیہ السلام ہونے میں کوئی شک باقی رہ جائے گا؟ خان صاحب نے اِس روایت کے الفاظ((المنارۃ البیضاء))کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد(age of aviation)ہے اور سفیدمنارہ سے مراد ایئرپورٹ کا سفید ٹاور ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ حضرت مسیح جب آئیں گے، تو وہ ایک سفید مینار(المنارۃ البیضاء)کے پاس اتریں گے(صحیح مسلم، کتاب الفتن)۔ اس حدیث رسول میں تمثیل کی زبان میں غالباً اُس دَور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کو عہدِپرواز(age of aviation)کا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز جب کسی ائرپورٹ پر اترتا ہے تو وہاں پہلا نمایاں نشان اُس کا کنٹرول ٹاور ہوتا ہے، جس کو ائر پورٹ کا مینار کہہ سکتے ہیں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء، ص۵۲) قابل توجہ امر یہ ہے کہ حدیث میں صرف سفید منارہ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ((المنارۃ البیضاء شرقی دمشق))(دمشق کے مشرق میں سفید منارہ)کے الفاظ ہیں اور دمشق یا دمشق کے مشرقی حصہ میں موجود سفید منارے کا(age of aviation)سے کیا تعلق بنتا ہے؟ معاصر(age of aviation)میں دمشق یا اس کے مشرقی حصہ کا کیا کردار رہا ہے؟ علاوہ ازیں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے سر سے موتیوں کی مانند پانی کے قطرے گرنے اور اُن کے لؤلؤ ومرجان بن جانے کا(age of aviation)سے کیاتعلق ہے؟درحقیقت خان صاحب نے اپنی اِس سطحی تاویل کے ذریعے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے معجزانہ نزول ،جو اُن کی پہچان کی مبرہن دلیل تھی،کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: ((فَیَمْکُثُ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفّٰی وَیُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ))(مسند أحمد: ۱۵؍۱۵۴)