کتاب: مولانا وحید الدین خان افکار ونظریات - صفحہ 20
میں بتائی گئی ہے : وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ(ابراہیم : ۴)…اِس آیت میں لسان سے مراد صرف زبان نہیں ہے، اِس میں وہ تمام پہلو شامل ہیں جو ایک کامیاب زبان کا ضروری حصہ سمجھے جاتے ہیں، مثلاً وضوح ، مؤثر اسلوب، ایسا کلام جو معاصر ذہن کو پوری طرح ایڈریس کرنے والا ہو، وغیرہ۔اِس قسم کا طاقتور اُسلوب کبھی اکتسابی نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ وہبی طور پر کسی ایسے شخص کو عطا ہوتا ہے جس سے خدا اپنے دین کی تبیین کا کام لینا چاہتا ہے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء، ص۵۰۔۵۱) 10۔مہدی یا مسیح اپنے مہدی یا مسیح ہونے کا اعلان نہیں کریں گے، یہ بھی اُن کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں: ’’ واضح ہو کہ آنے والے کے بارے میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں، لیکن اِن روایتوں میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آنے والا اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کرے گا، اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اُس کے معاصرین اعلان کے ساتھ اُس کا اعتراف کریں۔ اِس قسم کے اعلان کا ذکر روایتوں میں موجود نہیں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء، ص۱۵) خان صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں : ’’ اِس سلسلے میں غور وفکر کے بعد چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اس آنے والے شخص کی پہچان یہ نہیں ہو گی کہ وہ اپنے بارے میں اعلان کرے گا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء، ص۱۳) اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جب آنے والا یہ دعویٰ نہیں کرے گا کہ وہ مسیح یا مہدی یا مجدد ہے تویقینی طور کیسے معلوم ہو گا کہ کون مسیح یا مہدی یا مجدد ہے؟ اِس کے جواب میں خان صاحب فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اس کا یقینی علم آخرت میں ہی حاصل ہو گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ یہاں اِس معاملے کی وضاحت ضروری ہے کہ مہدی اور مسیح کے مسئلے کو اصولی طور پر بیان کرنا ایک الگ چیز ہے اور خود اپنے بارے میں مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ کرنا بالکل دوسری چیز…کون شخص مہدی تھا یا کس نے مسیح کا رول ادا کیا، اِس کا تحقق صرف