کتاب: مولانا وحید الدین خان افکار ونظریات - صفحہ 16
’’ روایت کے مطابق، مسیح کی ایک پہچان یہ ہو گی کہ اُن کے زمانے میں خدا اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کر دے گا : یھلک اللّٰه فی زمانہ الملل کلھا إلا الإسلام۔(سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال)اِس سے مراد بقیہ ملتوں کی جسمانی ہلاکت نہیں ہے، بلکہ اُن کی استدلالی ہلاکت ہے…حدیث کے مطابق، استثنائی طور پر یہ کام مسیح انجام دیں گے، جب کہ دوسرے لوگ ایسا کرنے میں اپنے آپ کو پوری طرح عاجز پا رہے ہوں گے۔ یہ واقعہ مسیح کی شخصیت کی ایک پہچان ہو گا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ : مئی ۲۰۱۰ء، ص۵۱۔۵۲) 3۔مسیح یا مہدی یارجل مؤمن، جو در حقیقت ایک ہی شخص ہے، دجال کو قتل کرے گا۔ دجال کے قتل سے مراد اُس کا نظریاتی قتل ہے۔ یعنی سائنسی دور میں لوگ سائنس کو بنیاد بناتے ہوئے خدا کا انکار کر دیں گے جبکہ مسیح اور مہدی کی پہچان یہ ہو گی کہ وہ اس الحادی فتنے کا ردّسائنسی دلائل ہی کی روشنی میں کریں گے۔ ایک جگہ مولانا اپنے موقف کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ’’ حدیثوں کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجال یا دجالیت دراصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہو گاکہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے۔ وہ یہ تاثر دیں گے کہ حق، علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھیر نہیں سکتا۔پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعے اس دجالی فتنے کا خاتمہ کر دے گا۔ وہ دجالی دلائل کو زیادہ برتر دلائل کے ساتھ بے بنیاد ثابت کر دے گا۔ یہ واقعہ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، تاریخ بشری کا پہلا واقعہ ہو گا۔ وہ دعوتِ حق کی عظیم ترین مثال کے ہم معنی ہو گا۔ اسی لیے اس کی بابت صحیح مسلم میں یہ الفاظ آئے ہیں : ھذا أعظم الناس شھادۃ عند ربّ العالمین۔ یہ عظیم دعوتی واقعہ قیامت سے پہلے پیش آئے گا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء، ص ۱۸۔۱۹) ایک اور جگہ خان صاحب اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ مہدی اور مسیح استدلال کے ذریعے دجال کے فتنے کو ختم کریں گے: ’’ دجال کے قتل سے کیا مراد ہے۔ اِس سلسلے کی روایتوں پر غور کرنے کے بعد سمجھ