کتاب: مولانا وحید الدین خان افکار ونظریات - صفحہ 15
اور مجددین کا دائرہ صرف محلی اور مقامی ہوا کرتا تھا۔ ،،(ماہنامہ الرسالہ: جنوری ۲۰۱۱ء، ص ۴۲) 2۔ مہدی یامسیح کی دوسری خاصیت یہ ہوگی کہ وہ دنیا میں پھیلے ہوئے غلط نظریات کا ابطال کرے گا، فکری کنفیوژن دور کرے گا اور اسلام کی ایک تعبیر پیش کرے گا جو معاصر غلط نظریات کی استدلالی موت کا باعث ہو گی ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دورِ آخر میں اُمت محمدی کے اندر ایک شخص اٹھے گا۔ حدیث میں اس کو المہدی کہا گیا ہے۔ ابو داؤد کی ایک روایت میں المہدی کا رول اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے : یملأ الأرض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما(کتاب المھدی، ح : ۲۴۸۵)یعنی مہدی زمین کو قسط اور عدل سے بھر دے گا، جیسا کہ اِس سے پہلے وہ جَوروظلم سے بھر دی گئی تھی۔ اِس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ نظریاتی توسیع کے معنی میں ہے…اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مہدی سے پہلے دنیا میں غلط نظریے کی عمومی اشاعت ہو جائے گی۔ مہدی اِس کے بجائے یہ کرے گا کہ وہ دنیا میں صحیح نظریے کی عمومی اشاعت کرنے میں کامیاب ہو گا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جنوری ۲۰۱۱ء، ص ۴۲) خان صاحب کے نزدیک غلط نظریے کے ابطال سے مراد فتنہ دہیماء کے بعد پیدا ہونے والے فکری کنفیوژن کو دور کرناہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ قیامت سے پہلے آخری زمانے میں ایک دور آئے گا جس کو حدیث میں فتنہ دہیماء کہا گیا ہے۔ فتنہ دہیماء سے مراد : الفتنۃ السوداء المظلمۃہے، یعنی مکمل تاریکی کا فتنہ۔ دوسرے لفظوں میں اس کو فکری تاریکی(intellectual darkness)کہا جا سکتا ہے۔ فتنہ دہیماء سے مراد قیامت سے پہلے کا وہ زمانہ ہے جب کہ اشاعتی ذرائع کی کثرت کے نتیجے میں مختلف قسم کے افکار کا جنگل اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔ اِس نازک دور میں اللہ کی سنت کے مطابق، کسی بندۂ خدا کے ذریعے کامل سچائی ظاہر ہو گی۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جون ۲۰۱۰ء، ص۱۰) ایک اور جگہ خان صاحب، مسیح کی پہچان کے بارے لکھتے ہیں :