کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 9
علامہ برزالی نے اپنی تاریخ میں آپ کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ علوم و فنون کے کسی بھی فاضل نے جب بھی کسی بھی فن میں شیخ الاسلام سے گفتگو کی تو یوں لگا گویاکہ آپ اسی فن کے ماہر و استاذ ہیں ۔اور آپ کو اس فن میں انتہائی پختہ اور درجہ کمال پر پہنچاہوا پایا۔ ‘‘[1] جب کہ مؤرخ اسلام ؛ حافظ ؛جرح و تعدیل میں انتہائی معتمد شخصیت جناب شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (۶۷۳۔۷۴۸ھ)شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں :’’ علوم تفسیر میں آپ پر معرفت کی انتہاء ہوتی تھی۔ احادیث آپ کو زبانی یاد تھیں ۔ معرفت رجال؛ علل حدیث صحیح و سقیم کی معرفت میں کوئی آپ کا ثانی نہیں تھا۔‘‘فقہ میں آپ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے مذاہب نقل کرتے تھے۔مذاہب اربعہ میں مہارت میں آپ کی کوئی نظیر نہیں تھی۔‘‘ مذاہب اور ادیان کی معرفت؛ علم اصول اور علم کلام میں میرے علم کی حد تک کوئی آپ کا ثانی نہیں تھا۔ لغت پر آپ کو مکمل عبور حاصل تھا۔اور آپ کی عربی زبان بہت قوی تھی۔ سیرت اور تاریخ کی معرفت میں آپ عجوبہ روزگار تھے۔ جب کہ آپ کی جرأت و بہادری ؛ شجاعت اور جہاد ایسے امور ہیں جن کے بیان کرنے سے قلم و کاغذ عاجز آگئے ہیں ۔‘‘[2]
[1] مختصر طبقات علماء الحدیث ۴/۲۸۲۔ نقلاً عن جامع سیرۃ شیخ الاسلام۔ [2] العقود الدریۃ من مناقب شیخ الاسلام ابن تیمیۃ ص ۳۹۔ الشہادۃ ۴۰۔