کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 89
’’ یہاں تک کہ آپ کی طرف ’’رسائل اخوان الصفا [1] ‘‘ منسوب کئے گئے ہیں ۔یہ جہالت کی انتہاء ہے۔ اس لیے کہ رسائل امام جعفر کی موت کے دو سو سال بعد تصنیف کئے گئے ہیں ۔ اس لیے کہ امام جعفر کی وفات ایک سو أڑتالیس ہجری میں ہوئی ہے۔ اور یہ رسائل بنو بویہ کی حکومت کے ابتدائی ایام میں چوتھی صدی ہجری میں لکھے گئے ہیں ۔ بنو بویہ وہ لوگ تھے جنہوں نے قاہرہ شہر بسایا۔ ان رسائل کی تصنیف میں فلاسفہ کی ایک جماعت نے حصہ لیا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح سے وہ شریعت اور فلسفہ کو ملاکر ایک نئی چیز پیش کریں گے۔ وہ خود بھی گمراہ تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی انہوں نے گمراہی پر لگادیا۔‘‘
ایسے ہی آپ نے بعض کتابوں کی تعریف و توصیف بھی کی ہے۔ ۵/۳۹۰ پر فرمایا ہے:
[1] رسائل اخوان الصفا چند رسائل کا مجموعہ ہے جنہیں بغداد میں بنو بویہ کے دور حکومت میں تالیف کیا گیا؛ ان رسائل کے لکھنے والے صبائی لوگ تھے جو فلسفہ کے علم سے شغف رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے یہ رسائل اس خیال سے جمع کئے کہ اس طرح وہ صبئیت اور ملت حنفیہ کو جمع کرکے ایک نیا دین ایجاد کرلیں گے۔ اس میں انہوں نے اپنی طرف سے ایک خود ساختہ فلسفہ پیش کیا ہے ۔ اور اس میں کچھ چیزیں شریعت کی بھی شامل کی ہیں ۔ ان رسائل بہت زیادہ چیزیں کفر اور جہالت پر مشتمل ہیں ۔ مگر اس کے باوجود بعض گاؤں کے قاضی اور جہلاء لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ امام جعفر کا کلام ہے۔ حالانکہ یہ کلام کسی زندیق اور جاہل کا ہی ہوسکتا ہے۔ اور یہ کسی جاہل کی ہی کارگری ہے ۔ دیکھیں (فتاوی۴/۷۹)