کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 88
ان کی طرح کے دوسرے لوگ ہیں ؛ اور پھر اپنی روایات میں ایسے لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں ؛جن کے بارے میں کسی چیز کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا ؛ نہ ہی ثقہ اور قابل اعتماد ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنی روایات میں کسی اصل کی طرف رجوع کرتے ہیں ؛ بلکہ ان کی اصل اساس اور کلی سرمایہ جھوٹے اور دروغ گو لوگوں کی من گھڑت روایات ہوتی ہیں ۔جنہیں وہ جہلا اور کذابین سے نقل کرتے ہیں اور یہ روایات خود افک مبین ہوتی ہیں ۔ آپ نے اہل خرافات کی ایک کتاب کا ذکر کرتے ہوئے ۴/۷۹ فرمایا ہے: ’’اور جیسا کہ بعض عوام الناس ابن غنضب کی کتاب سے روایات نقل کرتے ہیں ؛اور اس کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ یہ انسان حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہماکا استاد تھا۔ حالانکہ ایسی کسی بھی چیز کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ ملاحم ابن غنضب نام کی کوئی کتاب نہیں تھی۔بلکہ بادشاہ نور الدین کے زمانے میں بعض جاہل لوگوں نے اس کتاب کی تصنیف کی ہے۔ اور اس میں ایسے فاسد اشعار ہیں جن سے ان کے کہنے والے کی جہالت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔‘‘ ایسے ہی آپ حضرت امام جعفر بن محمد پر روافض کی جانب سے لگائے گئے الزامات اور جھوٹ کا ذکرکرتے ہوئے ۳۵/۱۸۳ پر فرماتے ہیں :